Inquilab Logo Happiest Places to Work

اے آئی کی تخلیقی خامیوں کو سدھارنے کیلئے انسانوں کو رکھنا پڑرہا ہے

Updated: July 18, 2025, 11:03 AM IST

ایک کمپنی نے ’کونٹینٹ ‘ کم خرچ میں  لکھوانے کیلئے مشین‘ کا سہارا لیا، لیکن اب اسکی غلطیاں سدھارنے کے لئے’ انسان‘ کو فی گھنٹہ ۱۰۰؍ڈالر کے حساب سے ۲؍ہزار ڈالر (اء۶۶؍لاکھ روپے) ادا کئے۔

Complaints of artificiality and flaws in AI-generated `content` are becoming common. Photo: INN.
اے آئی سے تیار ہونیوالے ’کونٹینٹ‘ میں  مصنوعی پن اورنقائص کی شکایت عام ہورہی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

جو کمپنیاں ملازمین کی جگہ مصنوعی ذہانت کو دینا چاہ رہی تھیں، اب وہی کمپنیاں اے آئی تکنیک کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے انسانوں کو پیسہ دے رہی ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اب ایک نئی صنعت اُبھر رہی ہے جس میں قلمکار اور پروگرامرز’اے آئی‘کی غلطیوں کو درست کرنے کاکام کررہے ہیں۔ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خوب کمائی بھی کر رہے ہیں۔ ’فیوچرزم ڈاٹ کوم‘ پر شائع خبر میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق، سافٹ ویئر انجینئرز اور قلمکاروں کے لئے ایک نئی انڈسٹری اُبھر رہی ہے، جنہیں ’اے آئی ‘کی پیدا کردہ غلطیاں سدھارنے کے لئے رکھا جا رہا ہے۔ 
مثال کے طور پر سارہ اِسکڈ کو ہی لیجیے۔ ایک کونٹینٹ  ایجنسی نے مئی میں ان سے رابطہ کیا، اس وقت ایجنسی کو مشکل درپیش تھی۔ ایجنسی نے ایک ہاسپٹالیٹی کلائنٹ کے لئے جنریٹیو اے آئی کی مدد سے ویب سائٹ کا متن لکھوایا، لیکن وہ مواد حسب معیار نہیں تھا، طرز تحریر میں مشینی پن بالکل  صاف جھلک رہاتھا۔ مجبوراً ایجنسی نے اسے دوبارہ سے لکھوانے کیلئے سارہ اسکیڈ سے رابطہ کیا۔ سارہ نے بتایا کہ ’’ یہ بالکل عام سی تحریر تھی جو عموماً اے آئی کی ہوتی ہے، — بالکل سادہ، غیر دلچسپ اور مصنوعی پن والی‘‘بقول سارہ ’’یہ تحریر فروخت بڑھانے والی اور صارف کی توجہ کھینچنے والی ہونی چاہیے تھی، لیکن یہ بہت بے مزہ تھی۔ ‘‘ ایریزونا سے تعلق رکھنے والی سارہ، جو ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپ کمپنیوں کےلئے کونٹینٹ رائٹنگ کاکام کرتی ہیں، نے یہ کام نئے سرے سے لکھنے میں ۲۰؍ گھنٹے لگائے۔ ان کی فی گھنٹہ فیس ۱۰۰؍ ڈالر کی شرح کے مطابق، ایجنسی کو۲؍ہزارڈالر (تقریباً۱ء۶۶؍ لاکھ روپے) ادا کرنے پڑے۔ 
سارہ اس بات سے پریشان نہیں کہ اے آئی ان کا روزگار چھین لے گا، بلکہ اس کے برعکس، اے آئی کی غلطیوں نے ان کے لیے زیادہ کام پیدا کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر آپ اپنے کام میں  ماہر ہیں اور باصلاحیت ہیں  تو یقین جانئے آپ کو اے آئی کے سبب کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ آپ کو کام ملےگا۔ " انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اکیلی نہیں جنہیں کام مل رہا ہے۔ ان کے مطابق، بہت سے قلمکار اب نئے مواد تخلیق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اے آئی کی خراب تحریروں کو درست کرنے کا کام کررہے ہیں۔ گزشتہ چند سال میں چیٹ جی پی ٹی، گوگل جیمنائی وغیرہ جیسے اے آئی ٹولز ٹولز کاروباری دنیا میں بہت مقبول ہو گئے ہیں، اور انہیں کام کے بہاؤ(ورک فلو) کو ہموار کرنے اور اخراجات کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کی’’فیڈریشن آف اسمال بزنسیز‘‘کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، ۳۵؍فیصدچھوٹے کاروبار اگلے دو سال میں اے آئی کے استعمال میں توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن سارہ اسکیڈ جیسے افراد کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اے آئی کوانسانی معیار تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔ 
 ہمپشائر میں واقع ایک ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایجنسی ’کریئیٹ ڈیزائنز‘کی شریک مالک سوفی وارنر، کہتی ہیں کہ گزشتہ۶؍ سے۸؍ ماہ میں ایسے کلائنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اے آئی کی پیدا کردہ مشکلات کو ٹھیک کروانے آتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں :’’پہلے کلائنٹس ہمیں اس وقت رابطہ کرتے تھے جب انہیں اپنی ویب سائٹ میں کوئی مسئلہ ہوتا یا نئی فنکشنلٹی شامل کرنی ہوتی، اب وہ پہلے چیٹ جی پی ٹی سے سے رجوع کرتے ہیں۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کردہ کوڈ ویب سائٹس پر شامل کرنے کے نتیجے میں، کچھ ویب سائٹس کریش کر گئیں اور سیکوریٹی خطرات بھی بڑھ گئے۔

(بشکریہ:بی بی سی اورفیوچرازم ڈاٹ کوم)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK