Inquilab Logo

’’حجاب اگر رائج ہے تو پابندی کا کوئی جواز نہیں ہے ‘‘

Updated: September 15, 2022, 12:55 AM IST | new Delhi

ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کہا کہ اس معاملہ میں مسلم معاشرہ کی روایت کو دیکھنا ضروری ہے ، ایڈوکیٹ احمدی نے بتایا کہ پابندی کی وجہ سے۱۷؍ ہزار لڑکیوں نے امتحان نہیں دیا

Hijab ban in Karnataka has darkened the educational future of thousands of girls
کرناٹک میں حجاب پر پابندی نے ہزاروں لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل تاریک کردیا ہے

کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری مقدمات کی شنوائی کے دوران بدھ کو ملک سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون اور حذیفہ احمدی نےمسلم طالبات کی جانب سے دلائل دئیے اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ ساتھ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کے فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دیا۔ جسٹس دھولیا اور جسٹس گپتا کی بنچ کے سامنے  بحث کی شروعات کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون  نے بہت زوردار دلائل پیش کئے۔
راجیو دھون کے دلائل
 سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون جو بہت کم معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں،  نے اس معاملے میں مسلم طالبات کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے بنچ کے سامنے دلیل دی کہ کرناٹک ہائی کورٹ کو حجاب پر پابندی کا فیصلہ کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ اس نے جو فیصلہ دیا اس میں بھی کئی غلطیاں ہیں جن کی جانب سے اس سے قبل ہی نشاندہی ہوئی ہے اور اب میں بھی وہی بتارہا ہوں ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہائی کورٹ اسی بات کو مد نظر رکھ لیتا کہ حجاب مسلم معاشرے میں رائج ہے یا نہیں تو اسے اس طرح کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  راجیو دھون کے مطابق مسلم معاشرے میں ایک زمانے سے  حجاب پوری پابندی کے ساتھ رائج ہے۔ جو عورتیں اسے استعمال نہیں کرتیں وہ استثنیٰ ہیں کیوں کہ حجاب عمومی طور پر رائج ہیں اور جو حجاب نہیں لیتی ہیں وہ بھی کسی نہ کسی سطح پر   حجاب کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس لئے ان خواتین کے انتخاب کی بنیاد پر پورے مسلم معاشرے کے لئے ایسا فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ راجیو دھون نے دوسری اہم دلیل دی کہ حجاب  پہننا لباس کے انتخاب کے                    اختیار کے تحت آتا ہے جو اظہار رائے کی آزادی کا اہم حصہ ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے کیسے اور کس بنیاد پر اتنی  بڑی بات سے صرف ِنظر کیا ۔ 
کچھ اہم سوال اٹھائے
 راجیو دھون نے ہائی کورٹ کے حکم کی بنیاد پرہی یہ سوال پوچھا کہ اگر ہائی کورٹ یا کرناٹک حکومت کا حکم کہتا ہے کہ کلاس روم میں برقعے کی اجاز ت نہیں دی جاسکتی کیوں کہ اس سے چہرہ نظر نہیں آتا ہے ، یہ بات قابل غور ہو سکتی ہے لیکن یونیفارم کے ساتھ  سر پر اسکارف باندھنے والی بچیوں کو اسی حکم کے تحت روک دیا گیا۔ کیا یہ کھلی نا انصافی نہیں ہے ؟ کیا سرکار نے اپنے بے وقوفی بھرے قدم کے ذریعے لاکھوں طالبات کامستقبل اندھیرے میں نہیں ڈھکیل دیا ہے؟ راجیو دھون  نے کیرالا حکومت کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ وہاں حجاب کو فرض مانا  گیا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و حدیث ہیںلیکن ہم اس کی فرضیت میں نہ پڑیں تب بھی میری یہی دلیل ہے کہ اگر معاشرے میں حجاب رائج ہے اور اسے پوری طرح اپنایا جاتا ہے تو اس پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حکومت کو اس معاملے میں یہی رویہ اپنانا چاہئے اور سپریم کورٹ کو بھی اسی بنیاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ دینا چاہئے۔ 
ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے اہم دلائل دئیے 
 ایڈوکیٹ راجیو دھون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈوکیٹ  حذیفہ احمدی نے اپنے دلائل کی شروعات کی ۔ انہوں نے کرناٹک حکومت کے ہدایت نامہ پر تنقیدیں کرتے ہوئے کہا کہ اس ہدایت نامہ کی رُو سے دیکھا جائے توریاست میں یکجہتی لانے کے لئے سب کو ایک جیسا پہننے کا فرمان دیا گیا جبکہ ریاستی حکومت یہ بھول گئی کہ یکجہتی کثرت میں   وحدت کے سبب  ہی آسکتی ہے اور یہ ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کثرت میں وحدت کو فروغ دیں ’یک رنگی ‘ سے پرہیز کریں۔
جسٹس سچر کی رپورٹ کا حوالہ دیا 
 ایڈوکیٹ احمدی نے اس دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ حجاب پر پابندی کے بعد سے ریاست میں ہزاروں لڑکیوں نے اسکول یا کالج چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح سے تو ہم لڑکیوں کو تعلیم سے دور کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل کے ساتھ جسٹس راجندر سچر کی  تیار کردہ مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی پسماندگی سے متعلق جامع رپورٹ کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ اس رپورٹ کو اگر ہم مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا معیار تسلیم کرلیں تو  یہ بات کھل کرسامنے آئے گی کہ مسلم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ صرف حجاب کی وجہ سے کتنا تعصب ہو تا ہے۔ ایسے میں کرناٹک حکومت کا حکم تو انہیں اور بھی زیادہ شکار بناسکتا ہے۔ ایڈوکیٹ احمدی کے مطابق اب تک کی رپورٹس یہی کہہ رہی ہیں کہ کرناٹک حکومت کے مذکورہ احکام کے بعدریاست میں ۱۶؍ سے ۱۷؍ ہزار لڑکیوں نے امتحا ن نہیں دیا ہے ۔ یہ بہت بڑا نمبر ہے۔ ہمیں بہت ہمدردی کے ساتھ اس پر غور کرنے کی ضرو رت ہے۔ ایڈوکیٹ احمدی نے اس کے بعد دستور کی تمہید کو بھی بطور دلیل پیش کیا اور اس میں پیش کئے گئے الفاظ کا تجزیہ بنچ کے سامنے کرکے دکھایا۔

hijab Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK