Inquilab Logo

عزم پختہ ہوتو۶۶؍ سال کی عمر میں بھی حفظ ِ قرآن ممکن ہے

Updated: May 09, 2024, 11:31 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

حافظ عبدالقادرزری والا کی لگن کا اندازہ کیجئے کہ ڈھلتی عمر اور کاروباری مصروفیات کے باوجود حافظ ِ قرآن ہونے کی سعادت حاصل کرلی۔

Hafiz Abdul Qadir Abdul Majeed Zariwala. Photo: INN
حافظ عبدالقادر عبدالمجید زری والا۔ تصویر : آئی این این

حافظ عبدالقادر عبدالمجید زری والاان خوش نصیبوں میںشامل ہیں جنہوں نے ۶۶؍ سال کی عمر میں کلام الٰہی کو اپنے سینے میں محفوظ کرکے حاملین قرآن کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔ اس عمر میں اور اپنی کاروباری مصروفیتوں کے باوجود انہوں نے عزم مصمم کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور تقریباً ۱۰؍برس میںیہ سعادت حاصل کرلی۔ تکمیل حفظ انہوں نے آمنہ ہائٹس (آگری پاڑہ) میں واقع مدرسہ ومسجد امینہ میں مولانا محمد عمرنذیری کے پاس کیا ۔آج بھی وہ پابندی کے ساتھ اس مدرسے میں فجر کی نمازکےبعد ایک گھنٹے کیلئے دیگر طلبہ کی طرح حاضری دیتے ہیں۔ اگر کبھی ناغہ ہوجاتا ہے تو استاد کو اس کی پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں۔ 
 یہ معلوم کرنے پرکہ اس عمر میں قرآن کریم یاد کرنے کاداعیہ کیسے پیدا ہوا؟ تو انہوں ۱۹۹۱ء کا اپنا سفر حج کا واقعہ بیان کیا۔حج کے دوران ایک دن حرم پاک کے قریب قیام گاہ پرحضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ محی السنہ مولانا شاہ ابرارالحقؒ ہردوئی کی مجلس چل رہی تھی۔ اس مجلس میں حضرت شاہ صاحب قرآن کریم حفظ کرنے کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ یہ ترتیب بتارہے تھے کہ قرآن کریم کی تقریباً ۶؍ ہزار ۶۶۶؍ آیتیں ہیں۔ اس اعتبار سے اگرکوئی شخص روزانہ ایک آیت حفظ کرے تو تقریباً ۲۰؍برس میں حافظ بن سکتا ہے۔ حضرت نے بطورمثال سورہ ٔ واقعہ کی پہلی آیت پڑھی اورفرمایا کہ سمجھ لیجئے آج کا سبق ہوگیا۔ کل دوسری آیت یاد کیجئے اور پہلی والی آیت کو ملاکر دہرالیجئے۔ اسی طرح ایک ایک آیت یاد کرتے اور ملاتے چلے جائیے۔ بس اسی وقت میں نے تہیہ کیا کہ انشاء اللہ میں بھی حفظ کروں گا۔ حج کے سفر کے دوران ہی کوشش کی اورسورہ واقعہ کے ساتھ چند اور سورتیں یاد ہوگئیں۔ اس کے بعد ممبئی لوٹا۔ اس وقت میں کرلا میں رہتا تھا۔ یہاں ایک مشہوربزرگ حکیم افغانی رہتے تھے۔ میں نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں آپ کو روزانہ قرآن کریم سنانا چاہتا ہوں، وہ خوش دلی سے تیار ہوگئے۔ اس طرح میں نے یاد کرکے انہیں روزانہ سنانا شروع کیا۔ اس کے بعد میری رہائش گاہ تبدیل ہوگئی اور میں زکریا مسجد کے پاس رہنے کے لئے چلاگیا۔ یہاں سے کرلا روزانہ سفر کرنا مشکل تھا۔ اس لئے ٹیلی فون پرسنادیتا تھا اورہفتے میں ایک دن حکیم صاحب کے پاس حاضر ہوکرانہیں سناتا تھا۔ اس کےبعد پھررہائش تبدیل ہوگئی اورآگری پاڑہ رہنے کے لئے آیا۔ یہاں سے بھی یہی معمول برقرارر ہا۔ اس طرح میں نے ۲۰؍پارے حکیم افغانی صاحب کے پا س مکمل کئے۔‘‘
 ۶۶؍سالہ حافظ عبدالقادر بتاتے ہیں کہ ’’۲۰؍پارے کی تکمیل کے بعد کاروباری مصروفیت بلکہ غفلت کی وجہ سے حفظ کرنے کا سلسلہ موقوف ہو گیا، مگر یہ خواہش تھی کہ تکمیل کرنی ہے۔ بالآخر ۲۰۱۶ء میں میں نے امینہ ہائٹس میں واقع مدرسہ ومسجد امینہ میں باقاعدہ داخلہ لیا اور یہاں کے استاد مولانا محمد عمر صاحب نذیری کو پہلے تھوڑا تھوڑا ۲۰؍ پارے سنائے، جب ۲۰؍پارے بڑی حد تک پختہ ہوگئے تو مولانا نے کہا کہ اب آگے بڑھئے۔ اس طرح گزشتہ سال میں نے تکمیل حفظ کیا۔۱۰؍پارے مکمل کرنے میں تقریباً ۲؍سال لگے۔ آج بھی اس مدرسے میں،میں باقاعدگی سے جاتا ہوں اور روزانہ پاؤ پارے سناتا ہوں، بقیہ اوقات میں مزید تلاوت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
 اس عظیم نعمت کے ملنے پرحافظ عبدالقادرزری والا کہتے ہیں کہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھےاس دولت کے نصیب ہونے میں میرے شیخ مولانا منیر احمد (کالینہ والے)، جن کا اسی رمضان المبارک میں انتقال ہوگیا، ان کی توجہ اور ان کے اِس خاص جملے کا اثر ہے جو مولانا اپنی مجالس میں اکثر کہا کرتے تھے۔ مولانا منیر احمد صاحب کہتے تھے کہ اگرحفاظ اور علماء کی قدر کرو گے تورب ذوالجلال تمہاری نسلوں میں بھی علماء اور حفاظ کو پیدا فرمائے گا، یہ غالباً اسی کی برکت ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بہرصورت علماء اورحفاظ کی قدر کی جائے اور اپنے بچوں کو بھی اکثر وبیشتراس کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہےکہ یہ بزرگوں کی دعاؤں ،ان کی توجہات اورفضل ِخداوندی سے یہ عظیم دولت نصیب ہوئی ہے،ورنہ اس عمر میںتومختلف اعذار ا ورمسائل درپیش رہتے ہیں۔ مگر جب خدا اپنے کسی بندے پرمہربان ہوتا ہے تو اسے نوازدیتا ہے۔ قرآن کریم حفظ کرنے میں میرا کمال نہیں میرے رب کی عطا اوراس کی مہربانی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK