Inquilab Logo

یونان: فلسطین حامی مظاہروں میں شرکت، ایتھنز یونیورسٹی کے ۹؍ غیرملکی طلبہ ملک بدر

Updated: May 20, 2024, 9:24 PM IST | Athens

جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور اسپین سے تعلق رکھنے والے ۹؍ مظاہرین کو گزشتہ ہفتے یونیورسٹی آف ایتھنز اسکول آف لاء میں فلسطین حامی مظاہرے میں شرکت کی پاداش میں ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وکلاء نے اسے من مانا فیصلہ قرار دیا اور اس کے خلاف اپیل کا منصوبہ بنایا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور اسپین سے تعلق رکھنے والے نو مظاہرین، جنہیں گزشتہ ہفتے یونیورسٹی آف ایتھنزا سکول آف لاء میں فلسطینی حامی مظاہرے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ انہیںیونان سے ملک بدر کیا جائے گا۔غیر ملکیوں کے وکلاء نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ملک بدری کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں، جو مدعا علیہان کو اپنے مقدمے میں شرکت سے روکیں گے۔عدالتی دستاویزات کے مطابق، پولیس نے گزشتہ ہفتے عمارت پر قبضہ کرنے والے مجموعی طور پر ۲۸؍یونانی اور غیر ملکی مظاہرین کو حراست میں لیا، جن پر عوامی ادارے کے کام کاج میں خلل ڈالنے اور غیر ملکی املاک کو نقصان پہنچانے میں مدد کے الزامات عائد کئے گئے۔مظاہرین نے کسی بھی غیر قانونی حرکتکی تردید کی ہے۔

دستاویزات کے مطابق ثبوتوں میں کتابچے، فلسطینی پرچم، دھوئیں کے دو شعلے، گیس ماسک، ہیلمٹ، پینٹ کین اور بینر کے کھمبے شامل ہیں، اس کے ساتھ یونانی اور انگریزی میں ایک ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے بیان کے ساتھ دوسروں کو بھی احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی گئی تھی ۔یونانی مظاہرین کو ۲۸؍مئی کو زیر التوا مقدمے کی سماعت کے لیے رہا کر دیا گیا تھا لیکن نو غیر ملکی شہری جن میں ایک مرد اور آٹھ خواتین، جن کی عمریں ۲۲؍سے ۳۳؍سال تک ہیں، ان کی ملک بدری کے فیصلے تک زیرِ حراست رہیں گے۔وکلاء نے کہا کہ ان کے مؤکل جو یونان میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں انہوں نےاس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایک ۳۳؍سالہ ہسپانوی شہری کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اس فیصلے کو ’من مانا اور غیر قانونی‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھئے: گوپی تھوٹاکورا پہلے ہندوستانی خلائی سیاح بن گئے

اکتوبر میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے بعد سے فلسطینی حامیوں نے یونان میں کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔یونان نے ۲۰۱۹ء میں اس قانون کو ختم کر دیا جس میں پولیس کو یونیورسٹیوں میں داخلے سے منع کیا گیا تھا،جبکہ قدامت پسند حکومت نے کہا تھا کہ اسے لاقانونیت کی آڑ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اکیڈمک سینکچری لاء، اس وقت کی فوجی حکومت کی طرف سے ۱۹۷۳ءکی طلبہ کی بغاوت پر کار روائی کی میراث ہے، جو احتجاج کرنے والے طلباء اور خیالات کی آزادی کے تحفظ کیلئے مرتب کیا گیا تھا۔ناقدین نے اس کے خاتمے کو جمہوریت پر حملہ قرار دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK