• Thu, 13 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مہاراشٹر حکومت کو سیکولر اقدار کی اتنی فکر ہے تو اپنے وزیروں پر قدغن کیوں نہیں لگاتی ؟

Updated: November 12, 2025, 11:23 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے اکولہ فساد کی جانچ کیلئے ایسی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کے افسران ہوں مگر حکومت نے اسے سیکولر اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا

Supreme Court: Secularism should be seen in reality, not on paper
سپریم کورٹ: سیکولرازم کاغذ پر نہیں حقیقت میں دکھائی دینا چاہئے

حال ہی میں سپریم کورٹ میں اکولہ فساد کی تحقیقات کے تعلق سے ایک دلچسپ مگر سنگین بحث ہوئی۔ اس بحث پر اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ عدالت بھی اب محسوس کر رہی ہے کہ مہاراشٹر میں فسادات کی جانچ کے معاملے میں سرعام جانبداری برتی جا رہی ہے۔اسی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو اکولہ فساد کی جانچ کیلئے ایک ایسی تفتیشی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کے افسران شامل ہوں۔ مہاراشٹر حکومت نے اس حکم پر نظر ثانی کی اپیل داخل کی جس کے بعد عدالت نے اس پر دہرا فیصلہ سنایا ۔ یعنی ایک جج نے حکومت کی عرضی مسترد کی تو دوسرے نے اس پر اتفاق ظاہر کیا۔ بالآخر وسیع بینچ نے فیصلے پر اسٹے دیا مگر غیر جانبدارانہ جانچ کی ہدایت دی۔  
 کہانی کچھ یوں ہے کہ اکولہ میں ۲۰۲۳ء میںجو فساد ہوا تھا اس میں محمد افضل شریف ( جو اس و قت ۱۷؍ سال کا تھا) زخمی ہواتھا۔افضل نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کی کہ اکولہ پولیس نے فساد کی جانچ متعصب انداز میں کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’جب مئی ۲۰۲۳ء میں ایک اہانت آمیز پوسٹ کی وجہ سے اکولہ میں فساد پھیلا تو میں نے دیکھا کہ ۴؍ لوگ گائیکواڑ نامی ایک شخص کو تلوار اور لوہے کے پائپ سے مار رہے ہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں تو ا نہوں نے مجھے بھی مارا۔ اس حملے میں گائیکواڑ کی موت ہو گئی اور مجھے اسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ ‘‘  افضل کے مطابق’’ پولیس نے اسپتال میں میرا بیان لیا لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی۔ بعد میں پولیس نے گائیکواڑ کے قتل کے معاملے میں ان لوگوںکے خلاف معاملہ درج کرنے کے بجائے جنہیں میں نے حملہ کرتے دیکھا تھا ، چند مسلم نوجوانوں پر کیس درج کر دیا۔ ‘‘  
  ساری جرح مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کمار اور جسٹس ستیندرشرما نے ۱۱؍ ستمبر ۲۰۲۵ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مہاراشٹر حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اکولہ فساد کی تفتیش کیلئے پولیس کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے ماننے والے افسران شامل ہوں۔ ہر چندکہ یہ حکم آئین کے سیکولر کردار کے منافی ہے لیکن عدالت نےاس کیلئے جواز بھی پیش کیا۔ اس حکم نامے کے بعد مہاراشٹر حکومت نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی عرضداشت داخل کی۔ حکومت کی جانب سے جرح کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ایسا کرنے سے محکمہ پولیس کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچے گا۔ اس طرح کا اقدام مناسب نہیں ہوگا۔ عدالت میں بحث ہوئی حتیٰ کہ دونوں جج صاحبان نے اپنا فیصلہ سنایا۔  دونوںکا  فیصلہالگ الگ تھا۔ جسٹس سنجے کمار نے مہاراشٹر حکومت کی عرضداشت کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ’’ سیکولرازم صرف کاغذ پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے حقیقت میں دکھائی دینا چاہئے۔‘‘ جبکہ جسٹس ستیندر شرما نے حکومت کے اصرار کو قبول کرلیا۔ عدالت نے منقسم فیصلہ سنایا تو معاملہ قاعدے کے مطابق چیف جسٹس کی قیادت والی وسیع بینچ کے پاس گیا جس میں جسٹس بھوشن گوئی (چیف جسٹس) جسٹس کے ونود چندرن اور جسٹس این سی انجاریہ شامل تھے۔ اس بینچ نے ۲؍ رکنی بینچ کے فیصلے کے اس پیراگراف پر اسٹے دیدیا جس میں دونوں مذاہب کے افسران کو شامل کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن باقی فیصلے کو قائم رکھا۔ عدالت نے مہاراشٹر حکومت کو ۴؍ ہفتوں کے اندر اکولہ فساد کی تفتیش کے تعلق سے تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا۔ 
 بلاشبہ مہاراشٹر حکومت کا موقف بالکل درست ہے کہ تفتیش کے معاملے میں مذہب کی بنیاد پر افسران کو منتخب نہیں کرنا چاہئے لیکن اسکے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ اسکے ایک وزیر نتیش رانے سرعام یہ کہتے پھرتے ہیں مہاراشٹر میں ہندوئوں کی حکومت ہے اور دیویندر فرنویس ہندوئوں کے وزیر اعلیٰ ہیں؟  بی جے پی رکن اسمبلی سنگرام جگتاپ یہ اعلان جاری کرتے ہیں کہ تہواروںکے موقع پر مسلم دکانداروں سے خریداری نہ کی جائے ؟ اور گوپی چند پڈلکر مسلمانوںکو مزہ چکھانے کی بات کرتے ہیں؟  یہ بات بالکل درست ہے کہ حکومت کا کوئی اقدام مذہب کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ مہاراشٹر حکومت پہلے اپنے متعصب وزیروں اور اشتعال انگیزاراکین اسمبلی کو نکال باہر کرے۔ پولیس کو حکم دےکہ کسی بھی واقعے کی تفتیش یہ دیکھ کر نہ کرے کہ ملزم کس مذہب کا ہے اور متاثرہ شخص کون سے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ آئین کے مطابق کام کرنا ہی سیکولرازم ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK