Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ملک کی فوج، ایئر فورس یا نیوی کو استعمال کرنا ہے تو آپ میں۱۰۰؍ فیصد سیاسی عزم ہونا چاہئے‘‘

Updated: August 01, 2025, 7:59 PM IST | Agency | New Delhi

پارلیمنٹ میں راہل گاندھی نے کشمیر ،پہلگام حملہ اور آپریشن سیندور پرحکومت کے سخت سوالات پوچھے، نشاندہی کی کہ دفعہ ۳۷۰؍ ہٹنے کے بعد بھی کشمیر میں کچھ ٹھیک نہیں ہوا

Rahul Gandhi during his speech in Parliament. Photo: INN
راہل گاندھی پارلیمنٹ میں تقریر کےدوران۔ تصویر: آئی این این

 میں صرف ایک سیاستداں نہیں ہوں۔ میں ان لاکھوں ہندوستانیوں کی نمائندگی کرتا ہوں جن کے گھر سے کوئی نہ کوئی وردی پہن کر سرحد کی طرف جاتا ہے۔ میں ان ماں باپ کی طرف سے بول رہا ہوں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو ترنگا تھام کر فوج میں بھیجا — اس امید پر کہ اگر کچھ ہوا، تو ملک اُن کی قربانی کا احترام کرے گا۔ لیکن افسوس! آج ملک اُن کے دکھ کو اشتہار بنا چکا ہے ۔ جب میں نے پہلگام حملے کی خبر سنی، میرا دل دہل گیا لیکن  ٹی وی پر ’آپریشن سیندور‘ کا نعرہ تھا۔ بریکنگ نیوز کا تماشا تھا۔ کیمرے تھے، ساؤنڈ ایفیکٹس تھے، لیکن ان سب کے بیچ..... ہمارے شہریوں کی  موت کا کوئی ماتم نہیں تھا، صرف ریٹنگ کا جشن تھا۔کیا ہم بھول گئے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟کیا ہم نے یہ کہہ کر خود کو دھوکا دے دیا کہ دفعہ ۳۷۰؍ ہٹ گئی ، اب سب ٹھیک ہے؟نہیں صاحب، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے!اگر سب ٹھیک ہوتا تو ہر دو مہینے میں ہمارے جوان شہید نہ ہوتے۔ اگر سب ٹھیک ہوتا تو پہلگام جیسا حملہ نہ ہوتا  اور اگر واقعی سب ٹھیک ہوتا  تو نیوز چینلز سیندور نہیں’’شہادت‘‘کی بات کرتے۔مجھے آج شرمندگی ہو رہی ہے۔ شرمندگی اس بات کی کہ ہماری سیاست اتنی بے رحم ہو گئی ہے کہ لاشوں پر بھی اقتدار کی اینٹ رکھی جاتی ہے۔جب میرے وطن کے جوان سرحد پر شہید ہوتے ہیں تو میرے اندر ایک طوفان اٹھتا ہے اور جب ان کی شہادت پر جشن منایا جاتا ہے، کیمرے  لگائے جاتے ہیں، خبروں میں ڈھول پیٹے جاتے ہیں — تو وہ طوفان چیخ بن کر باہر آتا ہے۔ اسی لئےمیں آج پارلیمنٹ میں کھڑا ہو کر یہ سوالات اٹھا رہا ہوں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ سچ کہنا، سوال کرنا، آج کی سب سے بڑی حب الوطنی ہے۔اور سچ یہ ہے کہ اگر آپ کو ہندوستان کی فوج، ایئر فورس یا نیوی کو استعمال کرنا ہے تو آپ کے اندر ۱۰۰؍ فیصد سیاسی عزم  ہونا چا ہئے۔آدھی نیت اور محض تقریروں سے جنگیں نہیں جیتی جاتیں   اور صرف عزم کافی نہیں —اگر فوج کو بھیجنا ہے تو آپریشن کی مکمل آزادی دینی ہوگی۔فوج کو حکمت عملی کی آزادی، وقت کا انتخاب اور میدان کا اختیار چاہئے — نہ کہ وہاٹس ایپ  یونیورسٹی سے ہدایت نامہ۔اب میں۱۹۷۱ء کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جہاں سے اصل سبق ملتا ہے،جہاں فوج کی طاقت کے ساتھ سیاسی عزم بھی برابر کھڑا تھا۔راجناتھ سنگھ جی نے کل اپنی تقریر میں۱۹۷۱ء اور آپریشن  سیندورکا موازنہ کیا۔سن کر پہلے حیرت ہوئی، پھر غصہ آیا۔میں انہیں یاد دلانا چاہتا ہوں۷۱ء میں  جب امریکہ کا ساتواں بحری  جنگی بیڑہ  بحر ہندکی طرف بڑھ رہا تھا،تب اندرا گاندھی  نے کہا تھاہمیں بنگلہ دیش میں جو کرنا ہے، ہم کریں گے۔ جسے آنا ہے آجائو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے!،یہ ہوتی ہے سیاسی قوتِ فیصلہ!یہ ہوتا ہے خودمختار ملک کا رویّہ ! دنیا کا سب  سے بڑا سپر پاور اپنے ایئر کرافٹ کیریئرس کے ساتھ بھارت کی سرحد کے قریب آ رہا تھا —لیکن ہندوستان  کے وزیراعظم نے دو ٹوک کہاکہ  ہمیں پروا نہیں۔ہم جو ضروری ہے، وہ کریں گےاور یہی نہیں —جنرل مانک شا نے جب اندرا گاندھی  سے کہا کہ میں گرمیوں میں آپریشن نہیں کر سکتا۔ مجھے چھ مہینے چاہئیںتو اندرا گاندھی نے کہا آپ کو چھ مہینے نہیں، ایک سال چاہیے تو لیجئے!جب آپ تیار ہوں، تب آپریشن کیجیے ۔ لیکن حکمت عملی آپ کی ہوگی ، — ہم مداخلت نہیں کریں گے ۔یہی وجہ تھی کہ۷۱ء میںایک لاکھ پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور دنیا کا نقشہ بدل گیا۔اب آئیے واپس حال کی  طرف۔کل میں نے راجناتھ سنگھ  کی تقریر دھیان سے سنی۔انہوں نے فخر سے کہاکہ آپریشن  سیندور صبح اتنے منٹ پر شروع ہوا اور صرف ۲۲؍ منٹ چلا ۔پھر انہوں نے ایک اور چونکا دینے والی بات کہی’’ہم نے پاکستان کو  فون کیا اور بتادیا کہ ہم نے نان-ملٹری ٹارگیٹ کو نشانہ بنایا ہے۔‘‘ 
 کوئی مجھے بتائے کہ کیا یہ جنگ ہوتی ہے؟یا کوئی ایونٹ مینجمنٹ؟آپ نے ۲۲؍منٹ میں  آپریشن مکمل کر لیا؟پھر فون اٹھایا  اور دشمن کو خود بتایا کہ ہم نے غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے؟یہ کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں تھی یہ تو اسکرپٹیڈ لگ رہا ہے۔ ۱۹۷۱ءمیں، جنرل مانک شا نے خود کہا تھا کہ ہم اپنی شرائط پر لڑیں گے اور یہاں آپ دشمن کو ٹیلیفون کر کے بتا رہے ہیں کہ ہم نے یہ کیا؟آج، فوج کو ایڈٹ شدہ اسکرپٹ کے ساتھ بھیجا جاتا ہے،اور ٹی وی اینکرز کو پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ کب کیا نشر کرنا ہے۔ ہمیں۱۹۷۱ءجیسے فیصلے کرنے ہوں گے نہ کہ ۲۲؍ منٹ کے تماشے دکھانے ہوں گے۔ میں  اب یہ پوچھوں گا کہ پہلگام حملے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟میں پوچھوں گا کہ جب چین نے سرحد پر قبضہ کیا، تو آپ نے کیوں کہا کہ کوئی  نہیںگھسا ؟میں پوچھوں گا کہ آپریشن سیندور کی اسکرپٹ کس نے لکھی؟اور سب سے بڑھ کر میں پوچھوں گا کہ ایک فوجی کی بیوہ جب اپنے شوہر کی لاش کو دیکھتی ہے، تو کیا اس کے آنسوؤں کی بھی ریٹنگ ہوتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے!نہ سرحد سنبھال سکی،نہ سفارت کاری،نہ میڈیا کی اخلاقیات،نہ عوام کا بھروسہ۔مجھے بتائیے، کیا ملک صرف مندر بنانے سے چلتا ہے؟کیا صرف جے شری رام بولنے سے دشمن رُک جاتے ہیں؟ نہیں صاحب، دشمن کو روکا جاتا ہے پالیسی سے، سنجیدگی سے، قربانی کی عزت سے ، فوج کی طاقت سےاور اس بات سے کہ جب سپاہی شہید ہوتو حکومت سینہ تان کر کھڑی ہو،نہ کہ سیندور کے پیچھے چھپ جائے۔اور سنیے  ڈونالڈ ٹرمپ صاحب نے ۲۹؍ بار کہا، جی ہاں ۲۹؍ بار کہا کہ میں نے بھارت اور پاکستان میں جنگ رکوائی ہے۔ میں نے سیز فائر کروایا ہے۔
 اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیںتو آج وزیراعظم مودی کو اس پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہہ دینا چا ہئے کہ ڈونالڈ ٹرمپ، تم جھوٹ بول رہے ہو!کہو نا؟ اگر واقعی دم ہے، اگر آپ کے اندر اندرا گاندھی جیسا ۵۰؍ فیصد حوصلہ بھی ہے  تو یہاں کہہ دو کہ ٹرمپ صاف جھوٹ بول رہے ہیں لیکن نہیں  یہاں صرف خاموشی ہے۔ صرف اداکاری ہے۔ صرف اشتہارات ہیں۔کبھی فلمی ڈائیلاگ، کبھی فوٹو شوٹ ۔کیا یہی ہے نیا بھارت؟سر! ایک اور نیا فیشن چل نکلا ہے’’نیو نارمل‘‘۔یعنی اب ہر چیز ’نارمل‘ ہے۔دہشت گردانہ حملہ؟ نارمل۔چین کی گھس پیٹھ؟ نارمل۔کشمیر میں بم دھماکہ؟ نارمل۔انصاف کی موت؟ نارمل۔پارلیمنٹ میں سچ بولنا؟ نارمل نہیں لیکن میں آج یہاں یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم اس نیو   نارمل کو نارمل نہیں مانتے۔ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارے فوجی صرف جنگ  اور ملک کی حفاظت کیلئے  ہیں، سیاست کیلئے نہیں۔ ہم یہ نہیں مانتے کہ خاموشی، خوف، اور فریب ہی ’نیا بھارت‘ ہے۔ہم سچ کو مانتے ہیں۔ ہم شجاعت کو مانتے ہیں۔ ہم شفافیت کو مانتے ہیں۔لہٰذا جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے وہ ہمارے سوالوں کے جواب دے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK