• Sun, 19 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہند۔ انگلینڈ ٹیسٹ سیریز: اعدادوشمار دلچسپ رہے

Updated: August 05, 2025, 10:05 PM IST | London

اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں ٹیموں کو الگ کرنا مشکل تھا، چاہے وہ بیٹنگ ہو یا بولنگ۔ انگلینڈ کا بیٹنگ اوسط۵۷ء۳۷؍ تھا جبکہ ہندوستان کا اس سے کچھ بہتر۷۷ء۳۹؍ رہا۔

Ben Stokes And Shubman Gill. Photo: PTI
شبھمن گل اور بین اسٹوکس۔تصویر:آئی این این

انگلینڈ میں ہندوستان کا گرمیوں کا دورہ ایک یادگار سیریز ثابت ہوا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی ایک سیریز میں دو ٹیسٹ میچ  ۲۵؍ رن سے کم فرق سے طے ہوئے۔ ۲۱؍ویں صدی کی ۲۷ ، ۵؍ میچوں کی سیریز میں یہ صرف چوتھی سیریز تھی، جس میں تمام پانچوں ٹیسٹ میچ پانچویں دن تک کھیلے گئے۔ 
اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں ٹیموں کو الگ کرنا مشکل تھا، چاہے وہ بیٹنگ ہو یا بولنگ۔ انگلینڈ کا بیٹنگ اوسط۵۷ء۳۷؍  تھا جبکہ ہندوستان کا اس سے کچھ بہتر۷۷ء۳۹؍ رہا۔ انگلینڈ نے۸۸؍ وکٹ حاصل کئے جس کا اوسط۸۴ء۴۱؍ تھا، جبکہ ہندوستان نے۸۴؍ وکٹ۳۸ء۳۸؍ کے اوسط سے حاصل کئے  تاہم، مختلف اوقات میں مختلف عوامل نے دونوں ٹیموں کو فائدہ پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیئے:فٹبال شائقین کیلئے بری خبر، میسی کیرالا کا دورہ نہیں کریں گے

یہ ایک اور سیریز تھی جس نے انگلینڈ کی ٹیسٹ پچ کی فطرت میں تبدیلی کی تصدیق کی — گیندبازوں کے حق میں ہونے کے بجائے اب بلے بازوں کو بڑا اسکور بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ سیریز میں کل۶۷۳۶؍ رن بنے، جو کسی بھی سیریز میں دوسرا سب سے زیادہ ہے  اور صرف۱۹۹۳ء کی ایشیز سیریز سے۲۰؍ رن کم ہے۔ کل۱۹؍ سنچری پارٹنرشپ ہوئیں، جو۱۹۹۸ء کے بعد سب سے زیادہ ہیں، جب سے مکمل پارٹنرشپ ڈیٹا دستیاب ہوا۔۲۱؍ سنچریاں بنیں، جو۱۹۵۵ء میں ویسٹ انڈیز کے آسٹریلیا کے دورے کے ساتھ مشترکہ طور پر سب سے زیادہ ہیں۔ اگر ہیری بروک لیڈز میں۹۹؍رن  پر آؤٹ نہ ہوتے تو یہ ایک نیا ریکارڈ بن جاتا۔
ہندوستان نے ۱۲؍سنچریاں بنائیں، جو کسی ایک سیریز میں ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ ہیں جبکہ انگلینڈ نے۹؍ سنچریاں بنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ٹیموں کی کامیابی کے طریقے مختلف تھے۔ انگلینڈ کی اوپننگ جوڑی مضبوط رہی۔ ان کا اوسط ۴۴ء۶۵؍تھاجبکہ ہندوستان کا صرف۱۰ء۳۴؍ رہا۔ ہندوستان نے اپنی پہلی اننگز میں۱۰؍ میں سے ۸؍بار پہلے۱۰؍ اوورس میں ہی پہلا وکٹ گنوا دیا جبکہ انگلینڈ نے۹؍ اننگز میں صرف۵؍  بار ایسا کیا۔
بین ڈَکٹ اور زیک کراؤلی نے۳۴ء۴؍ کی رفتار سے رن بنائے جبکہ ہندوستان نے اسی مرحلے میں ۳۶ء۳؍کے  اوسط سے اسکور کیا۔ اگرچہ ہندوستان کی اوپننگ جوڑی — کے ایل راہل اور یشسوی جیسوال — نے ۴؍ سنچریاں بنائیں، لیکن ڈَکٹ اور کراؤلی کی جوڑی زیادہ جارحانہ تھی۔
البتہ، مڈل آرڈر میں ہندوستان نے زیادہ نقصان پہنچایا۔ نمبر۴؍ سے۶؍ کے درمیان ہندوستان کا اوسط ۶۶ء۶۵؍ رہا، جبکہ انگلینڈ کا۲۶ء۵۱؍رہا۔ جو روٹ نے ہندوستان کے خلاف اپنی تیسری سیریز میں ۵۰۰؍ سے زائد رن بنائے، مگر شُبھمن گل نے ۷۵۴؍ رن کے ریکارڈ کے ساتھ انہیں پیچھے چھوڑ دیا — جو کسی بھی  ہندوستانی کپتان کے لیے ایک سیریز میں سب سے زیادہ ہے۔
نمبر۵؍ پر ہندوستان نے پھر سبقت حاصل کی۔ ہیری بروک کا اوسط۶۶ء۵۵؍ رہا، لیکن ہندوستان  کے وکٹ کیپر بلے باز رشبھ پنت نے ۴؍ میچوں میں ۴۲ء۶۸؍ کا اوسط برقرار رکھا  تاہم سیریز کا سب سے بڑا فرق — یا سب سے مستقل کارکردگی دینے والا کھلاڑی — رویندر جڈیجا تھے۔
جڈیجا نے نمبر۶ یا ۷؍ پر کھیلتے ہوئے سیریز میں ۵۱۶؍رن بنائے۔ ان کے نام سب سے زیادہ ۵۰؍ پلس  اسکور (۷) ہیں اور وہ نمبر۶؍ یا۷؍ پر کھیلتے ہوئے ایک سیریز میں۵۰۰؍پلس  رن بنانے والے چھٹے بلے باز بن گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK