سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی پہلی بار الیکشن میں قسمت آزمارہی ہیں، پارٹی نے انہیں ’بجبہاڑہ ‘ حلقے سے اپنا امیدوار بنایا ہے جو مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی کی روایتی سیٹ رہی ہے۔
EPAPER
Updated: September 10, 2024, 10:34 AM IST | Agency | Srinagar
سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی پہلی بار الیکشن میں قسمت آزمارہی ہیں، پارٹی نے انہیں ’بجبہاڑہ ‘ حلقے سے اپنا امیدوار بنایا ہے جو مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی کی روایتی سیٹ رہی ہے۔
جموں کشمیر میں جن چند اسمبلی سیٹوں پر صرف کشمیر نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہیں مرکوز ہیں، ان میں سے ایک’ بجبہاڑہ‘ بھی ہے جہاں سے مفتی محمد سعید کی نواسی اور محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی اپنی پارٹی کی امیدوار ہیں۔ یہ مفتی محمد سعید کی خاندانی اور روایتی سیٹ مانی جاتی رہی ہے لیکن اس بار پی ڈی پی کی امیدوار کو نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے امیدواروں سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اس نشست کیلئے سب سے کم یعنی صرف تین ہی امید وار میدان میں ہیں لیکن التجا کیلئے نیشنل کانفرنس کے سینئر اور با اثر لیڈر ڈاکٹر بشیر ویری کا مقابلہ کرنا بہت بڑا چیلنج مانا جا رہا ہے۔ یہاں سے تیسرے امید وار بی جے پی لیڈرصوفی یوسف ہیں۔ حالانکہ یہ بھی ایک سینئر لیڈرمانے جاتے ہیں اور انہوں نے کئی بار انتخابات میں حصہ بھی لیا ہے لیکن انہیں کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی اس بار کافی زور آزمائی کررہی ہے اور اس کیلئے ’سام دام دنڈبھید‘ سب کا سہارا لے رہی ہے۔ یہاںتین مرحلوں پر محیط اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں یعنی ۱۸؍ ستمبر کو پولنگ ہوگی۔
پی ڈی پی کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ محمد یوسف کا کہنا ہے کہ’’جہاں تک بجبہاڑہ نشست پر التجا مفتی کے مقابلے کا تعلق ہے، در اصل یہاں تمام طاقتیں پی ڈی پی کے خلاف ایک طرح سے متحد ہیں۔انہیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ پارٹی اقتدار میں نہ آجائے۔ہم ان تمام طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور نہ صرف بجبہاڑہ سیٹ پر بلکہ جنوبی کشمیر کی تمام سیٹوں پر کامیاب ہونے کی امید کرتے ہیں۔ہمیں اپنے لوگوں پر بھروسہ ہے کہ وہ پی ڈی پی ہی کو ووٹ دیں گے۔‘‘
ان کے دعوے کے برعکس دیگر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ التجا مفتی کیلئے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ان کا مقابلہ براہ راست نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر بشیر ویری کے ساتھ ہے جن کا اس نشست پر اچھا خاصا اثر ہے۔ حالانکہ ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اس سیٹ پر برسوں سےمفتی خاندان کی اجارہ داری رہی ہے۔ ۱۹۹۶ء سے پی ڈی پی مسلسل اس سیٹ پر قابض ہے۔۲۰۱۴ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس نشست پر پارٹی کے امید وار عبد الرحمان بھٹ نے۲۳؍ ہزار ۵۸۱؍ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ۲۰۰۲ء اور۲۰۰۸ء میں بھی اس سیٹ پر’بھٹ‘ ہی کامیاب ہوئے تھے۔التجا مفتی بجبہاڑہ کو پارٹی کا گڑھ نہیں بلکہ اپنا گھر قرار دیتی ہیں۔
بجبہاڑہ نشست سے نیشنل کانفرنس کے امید وار ڈاکٹر بشیر احمد ویری کا کہنا ہے کہ اب کی بار اس سیٹ پر ہماری کارکردگی بہت اچھی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی پی کے چہرے سے نقاب اُٹھ گیا ہے، اس پارٹی نے لوگوں کے ساتھ ایک نہیں ، بار بار فریب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۴ء میں اس پارٹی نے عوام سے یہ کہہ ووٹ حاصل کئے تھے کہ اگر بی جے پی اور آر ایس ایس کو دور رکھنا ہے ہمیں ووٹ دیں اور لوگوں نے ووٹ دیئے بھی لیکن بعد میں اس پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ ہی اتحاد کرکے حکومت بنا لی تھی۔طارق احمد نامی ایک سیاسی تجزیہ کار کاکہنا ہے کہ `بجبہاڑہ نشست کا نام سن کر ہی لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سیٹ مفتی خاندان کی ہے اور۱۹۹۶ء سے اس کے امیدوار اس سیٹ پر لگاتار کامیابی درج کر رہے ہیں تاہم گزشتہ چند برسوں سے اس حلقے پر نیشنل کانفرنس کی جانب سے بھی کافی محنت ہورہی ہے جس کی وجہ سے اس کے بھی اثرات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس سے اتحاد کی وجہ سے نیشنل کانفرنس کا وزن بڑھ گیا ہے، اسلئے اس سیٹ پر ہونے والےالیکشن میں انتہائی دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
بجبہاڑہ اسمبلی حلقہ انتخاب اننت ناگ – راجوری لوک سبھا انتخاب کا حصہ ہے۔ ابھی حال ہی میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں یہاں پر پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن انہوں نے اپنے اس خاندانی حلقے سے ووٹوں میں برتری حاصل کی تھی۔اس حلقے میں انہیں ۲۰؍ ہزار۹۲۷؍ ووٹ ملے تھے جبکہ نیشنل کانفرنس کے امید وار کو۱۷؍ ہزار۶۹۸؍ ووٹ ملے تھے۔سیاسی مبصرین کاخیال ہے کہ۳۶؍ سالہ التجا نے لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی والدہ کیلئے زبردست انتخابی مہم چلائی تھی۔ ان کی محنت بھلے ہی ثمر آور ثابت نہ ہوسکی لیکن بجبہاڑہ حلقے میں ان کی برتری بتاتی ہے کہ اسمبلی الیکشن میں انہیں اس کا فائدہ ملے گا۔ ۱۸؍ ستمبر کو پولنگ تو ہوجائے گی لیکن یہاں کون سکندر بنے گا،اس کااعلان ۸؍ اکتوبر کو ہی ہوگا جب ووٹوں کی گنتی ہوگی۔