Inquilab Logo

ماحولیاتی تبدیلی سےکمزور ممالک میں تنازعات، اموات میں اضافےکا خطرہ :آئی ایم ایف

Updated: September 03, 2023, 12:22 PM IST | Agency | Washington

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے دنیا بھرکے کمزور ممالک میں تنازعات کے مزید بڑھنے اور اموات میں اضافے کا خطرہ ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے دنیا بھرکے کمزور ممالک میں تنازعات کے مزید بڑھنے اور اموات میں اضافے کا خطرہ ہے۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ روزجاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اگرچہ صرف ماحولیاتی تبدیلی ہی نئی بدامنی کو جنم نہیں دے سکتی لیکن وہ نمایاں طورپر تصادم کو مزید ہوا دیتی ہے جس سے بھوک، غربت اور نقل مکانی جیسے مسائل مزید بڑھ جاتے اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں ۔
 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ۲۰۶۰ء تک مبینہ کمزور اور تصادم سے متاثرہ ریاستوں (ایف سی ایس) میں تنازعات کے سبب ہونے والی اموات میں ۸ء۵؍ فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ درجہ حرارت میں انتہائی اضافے والے ممالک میں ہونے والی اموات۱۵؍فیصد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔ورلڈ بینک کی درجہ بندی کے مطابق۳۹؍ ممالک میں تقریباً ایک ارب افراد رہتے ہیں اور دنیا کی۴۳؍فیصد آبادی ایف سی ایس کے زمرے میں آتی ہے اور ان ممالک میں سے نصف سے زیادہ افریقی ملک ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے غیر مناسب بوجھ کا شکار ہیں ۔
 آئی ایم ایف نے خبردار کیا کہ ان ممالک میں ۲۰۶۰ء تک۵؍کروڑ ملین سے زیادہ لوگ، خوراک کی کم پیداوار اور اناج کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ ادارے نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ممالک میں زیادہ شدید اور مستقل ہوتے ہیں ۔ آئی ایم ایف نے ایک الگ بیان میں کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ آئندہ ہفتے کینیا میں ہونے والی پہلے افریقی ماحولیاتی سربراہی اجلاس کیلئے جمع ہونے والے لیڈر کمزور ممالک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں ۔
 آئی ایم ایف نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ہر سال دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ریاستوں میں قدرتی آفات سے ۳؍ گنا زیادہ افراد متاثر ہوتے ہیں ۔ آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ کمزور ریاستوں میں آنے والی آفات دوسرے ممالک کی آبادی کے دُگنا سے زیادہ حصے کو بے گھر کرتی ہیں ۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ۲۰۴۰ء تک ان ممالک کو سال میں ۶۱؍ دن اوسطاً۳۵؍ ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں ۴؍ گنا زیادہ ہے۔ عالمی ادارے نے مزیدکہا کہ انتہائی گرمی اور اس کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات انسانی صحت کو خطرے میں ڈال دیں گے اور اس سے زراعت اور تعمیرات جیسے اہم شعبوں میں پیداواری صلاحیت اور ملازمتوں کو نقصان پہنچے گا۔اس مسئلہ کا حل بہت ضروری ہے اور یہ جلد سے جلد نکالا جانا چاہئے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK