Inquilab Logo

یوکرین معاملے میں ہلچل تیز، کہیں جنگ کی تیاری، کہیں صلح کی کوشش

Updated: February 04, 2022, 8:58 AM IST | Kiev

جو بائیڈن نے یوکرین کے دفاع کیلئے ہزاروں فوجی جرمنی اور پولینڈروانہ کئے ،بورس جانسن کا کیف دورہ، یوکرین سے اظہار یکجہتی، رجب طیب اردگان بھی یوکرین کے صدر سے ملنے پہنچے ثالثی کی پیش کش

Tayyip Erdogan with Ukrainian President Vladimir Zelensky
طیب اردگان یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ

روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔  دونوں جانب کشیدگی تو ہے ہی ان کے حامیوں اور مخالفین  کے  درمیان بھی ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ ایک طرف امریکہ سمیت اہم مغربی ممالک نے روس کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی ہے تو دوسری طرف ترکی نے دونوں ممالک کی کشیدگی کم کرنے کے تعلق سے اقدامات کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔  امریکہ نے یوکرین کے دفاع کی خاطر مشرقی یورپ میں ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے یوکرین کا دورہ کرکے روس کے خلاف کسی بھی تصادم کی صورت میں  یکجہتی  کا اظہار کیا۔ جانسن کے فوراً بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان  نے بھی یوکرین کی راجدھانی کیف پہنچے جہاں انہوں نے ان دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی۔ 
  امریکہ کا جنگی اقدام
   امریکی صدر جو بائیڈن نے حالانکہ پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ لڑائی کے وقت  اپنی فوج وہاںنہیں بھیجیں گے لیکن  انہوں نے یورپی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے مشرقی یورپ میں اپنی فوجیں  روانہ کی ہیں۔    امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے بتایا کہ  صدر جو بائیڈن اس ہفتے نارتھ کیرولینا کی ریاست میں واقع فورٹ بریگ سے تقریباً دو ہزار فوجی پولینڈ اور جرمنی بھجوا رہے ہیں ، جبکہ جرمنی میں موجود اندازاً ایک ہزار فوجیوں کو رومانیہ روانہ کیا جائے گا۔پنٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے بتایا کہ امریکہ کی طرف سے مشرقی یورپ میں تعینات کیلئے فوج کے بھجوائے جانے کامقصد امریکہ اور اتحادیوں کے دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ یہ فوجی یوکرین میں داخل نہیں ہوں گے۔ ایک اطلاع کے مطابق پنٹاگون نے تقریباً ۶؍ ہزار ۵۰۰؍امریکی فوجیوں کو چوکنا کردیا ہے جنہیں ممکنہ طور پر یورپ میں تعینات کیا جاسکتا ہے اور اہل کاروں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مزید فوجی دستوں کو ہائی الرٹ پر رکھ دیا گیا ہے۔
 برطانیہ کا مذاکرات پر بھی زور اور اسلحہ کی فراہمی بھی 
 ایک روز قبل برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے خود یوکرین کی راجدھانی کیف جا کر صدر ولادیمیر  زیلنسکی سے ملاقات کی۔ اس دوران انہوں نے  اس پورے تنازع پر تبادلۂ خیال کیا اور یوکرین کے ساتھ  یکجہتی کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے روس پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی جانب لوٹ آئے۔ بورس جانسن نے کہا کہ’’  ہم روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ مزید خون خرابے سے بچنے کیلئے مذاکرات کا حصہ بنے اور مسئلے کا سفارتی حل تلاش کرے۔‘‘ ایک طرف جہاں بورس جانسن نے مذاکرات کے تعلق سے بیان دیا تو دوسری طرف انہوں نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرح یوکرین کو اسلحہ فراہم کروایا ہے تاکہ روس کے ساتھ جنگ کی صورت میں وہ یوکرین کمزور نہ پڑ جائے۔ ساتھ ہی برطانیہ نے  بالٹک ممالک  میں اپنے فوجیوں کی تعداد دوگنا کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔  یاد رہے کہ یوکرین کے دورے کے بعد بورس جانسن نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ اطلاع کے مطابق انہوں نے پوتن سے اصرار کیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے  جنگ کے علاوہ کوئی اور( درمیانی )راستہ  نکالنے پر غور کریں۔ 
 طیب اردگان کی جانب سے ثالثی کوشش
 اس دوران سب سے دلچسپ کردار ترکی کا نظر آ رہا ہے جو اچانک اس پورے تنازع میں اہم ہو گیا ہے۔ دراصل ترکی یوکرین اور روس دونوں ہی ممالک کا دوست ہے۔ چونکہ ترکی نیٹو کا رکن ہے اس لئے  اس پر یوکرین کی مدد کرنا لازمی ہے۔  جبکہ روس اس کے سب سے قریبی دوستوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ کی ناراضگی کے باوجود اس نے روس سے ایف ۴۰۰؍ سیٹیلائٹ خریدے ہیں۔ اگر کوئی جنگ ہوتی ہے تو ترکی کیلئے یہ جنگ انتہائی اہم ہوگی۔ اسی صورتحال کے درمیان رجب طیب اردگان جمعرات کو کیف پہنچے جہاں انہوں نے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔ انہوں نے انقرہ سے روانہ ہونے سے قبل ہی میڈیا کو بتایا کہ ’’ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو ترکی وہی کرے گا جو نیٹو کا رکن ہونے کے سبب اس کی ذمہ داری ہے ۔‘‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ روس اور یوکرین دونوں ہی ترکی کے دوست ہیں ، اس لئے ہمیں اس  معاملے کو انتہائی محتاط انداز میں حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔‘‘
   اردگان نے کہا کہ ’’  میں ولادیمیر پوتن اور ولادیمیر زیلنسکی دونوں ہی سے بے تکلف گفتگو کر سکتا ہوں۔ اس لئے مجھے  یقین ہے کہ میں اس معاملے کو سلجھانے میں ان کی مدد کر سکوں گا۔‘‘ اردگان  کے مطابق ’’ ترکی ان دونوں ممالک کے درمیان ایک بہتر ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘ ان ساری سرگرمیوں کے درمیان روس اور یوکرین کے درمیان صورتحال جوں کی توں ہے۔ یعنی دونوں سرحدیں جنگ کے د ہانے پر ہیں۔ روس نے یوکرین کی سرحد سے  اپنی فوج ہٹانے سے انکار کر دیا ہے جبکہ مغربی ممالک نے روس کی اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کریں اور سرحد پر نیٹو کی سرگرمیوں کو محدود کریں۔ اب کسی بھی مفاہمت کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں۔ 

turkey Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK