Inquilab Logo

دو ہزار سترہ میں گجرات میں بی جے پی کی چولیں ہل گئی تھیں لیکن این سی پی نے اسکی ڈوبتی نیا بچالی

Updated: April 18, 2023, 10:55 AM IST | nadir | Mumbai

دونوں ریاستوں میں ان تینوں پارٹیوں کی جو ۶۲؍ سیٹیں تھیں وہ پلٹ کر ۲۶؍ کے عدد پر آگئیں۔ لالو یادو نے بہار میں اپنی زمین گنوادی۔ نتیش کمار جنہیں ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں بہار میں ۲؍ سیٹیں ملی تھیں

Neither his opponents nor his supporters know where Sharad Pawar`s eyes are (file photo).
شرد پوار کی نگاہیں کہاں ہیں یہ نہ ان کے مخالفین کو معلوم ہے نہ ان کے حامیوں کو ( فائل فوٹو)

دونوں ریاستوں میں ان تینوں پارٹیوں کی جو ۶۲؍ سیٹیں تھیں وہ پلٹ کر ۲۶؍ کے عدد پر آگئیں۔ لالو یادو نے بہار میں اپنی زمین گنوادی۔ نتیش کمار جنہیں ۲۰۰۴ء کے الیکشن میں بہار میں ۲؍ سیٹیں ملی تھیں ، ان کی سیٹوں کی تعداد ۲۰؍ ہو گئی جبکہ لالو کی پارٹی ۲۴؍ سے سمٹ کر ۴؍ پر آ گئی۔ بہار میں تو لالو کا جو حال ہوا سو ہوا یو پی اے میں ان کا قد اچانک گھٹ گیا ۔ اس کے بعد لالو کبھی مرکز کی سیاست میں اہم رول ادا نہیں کرسکے۔  اس دوران شرد پوار مرکز کی سیاست میں پچھلی صف میں آگئے۔ کبھی نرسمہار ائو کی حکومت میں وزیر دفاع رہ چکے شرد پوار کو یو پی اے ( منموہن سنگھ) حکومت میں وزیر زراعت کے عہدے پر اکتفا کرنا پڑا۔ لیکن  اس عرصے میں انہوں نے خود کو مہاراشٹر میں مضبوط کیا اور ریاستی سیاست میں کئی معاملوں میں وہ کانگریس سے آگے نکل گئے۔
  یہاں تک کہ ۲۰۱۴ء کا وہ دور آگیا جب نریندر مودی کو ایک نئے روپ میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا ۔ بی جے پی کے بانیوں کو یعنی اڈوانی ، واجپئی اور جوشی کو کنارے کر دیا گیا ، بال ٹھاکرے اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ ملائم سنگھ یادو نے خود اپنی پارٹی کی کمان اپنے بیٹے کو سونپ دی تھی۔ مرکز میں  اب ایک نیاباب شروع ہو چکا تھا۔اسی وقت کا ذکر نریندر مودی بار بار کرتے ہیں کہ انہوں نے سیاست کی گلیوں میں چلنا شرد پوار کی انگلی پکڑ کر سیکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ  یہ شرد پوار ہی تھے جنہوں نے ۲۰۱۴ء کے اسمبلی الیکشن میں  بی جے پی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ شیوسینا سے علاحدہ ہو کر تنہا الیکشن لڑے اور خود انہوں نے کانگریس  سے اتحاد ختم کرکے اکیلے الیکشن لڑا تھا۔ 
 اتنا ہی نہیں انہوں نے بی جے پی کو ۳۵؍ سے ۴۰ ؍ امیدوار بھی فراہم کروائے تھے۔ ۲۰۱۶ء میں راج ٹھاکرے نے اپنی ایک ریلی کے دوران ان امیدواروں کے نام گنوائے تھے جن کا تعلق این سی پی سے تھا لیکن انہوں نے الیکشن بی جے پی کےٹکٹ پر لڑا تھا۔ جب الیکشن کے نتائج آئے تو بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ اسے تن تنہا ۱۲۲؍ سیٹیں حاصل ہوئیں۔
  یاد رہے کہ یہ تعداد اس سے پہلے کے الیکشن میں شیوسینا بی جے پی کی مجموعی سیٹوں سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بی جے پی اس تعداد کے ساتھ حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ اس کیلئے اسے مزید ۲۳؍ سیٹوں کی ضرورت تھی۔ شیوسینا نے صاف طور پر بی جے پی کی حمایت سے انکار کر دیا تھا ۔ تبھی اچانک این سی پی کے ترجمان پرفل پٹیل ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ’’ چونکہ عوام نے بی جے پی کو سب سےز یادہ سیٹیں دی ہیں اس لئے  این سی پی بی جے پی کی بلا شرط حمایت کرنے کیلئے تیار ہے۔‘‘ یہ اعلان دراصل حربہ تھا شیوسینا پر دبائو بنانے کا ۔ شیوسینا چاہتی تھی بی جے پی اسے منائے لیکن بی جے پی نے این سی پی کا استعمال کرکے شیوسینا کو ’ مان جانے‘ پر مجبور کر دیا۔ بات یہیں تک نہیں رکی۔
  ۲۰۱۷ء میں جب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے گجرات میں عوام سے لے کر کاروباری طبقہ تک ہر کوئی بی جے پی سے ناراض تھا اوپر سے ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکر جیسے نوجوان لیڈروں نے اپنی مہم سے اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ امید تھی کہ کانگریس اس بار  ۲؍ ۴؍ سیٹوں ہی سے سہی بی جے پی کو مات دیدے گی۔ نتائج آنے کے بعد معلوم ہوا کہ کانگریس نے بی جے پی کی چولیں ہلا دی تھیں لیکن یہ این سی پی تھی جس نے کسی طرح بی جے پی کی ڈوبتی نیا کو بچا لیا۔بی جے پی کو ۹۹؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ کانگریس کو ۷۷؍ لیکن ۳۰؍ سیٹیں ایسی تھیں جہاں کانگریس کو ایک ہزار سے ۳؍ ہزار ووٹوں تک سے شکست ہوئی تھی۔ اور ان میں سے بیشتر پر این سی پی نے کانگریس کے ووٹ کاٹے تھے۔( جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK