Inquilab Logo Happiest Places to Work

۹؍ جولائی کو بھارت بند: ۲۵؍ کروڑ کارکنان کی ’’مزدور مخالف اور کارپوریٹ نواز‘‘ پالیسیوں کے خلاف ہڑتال

Updated: July 08, 2025, 5:29 PM IST | New Delhi

کل بھارت بند کی وجہ سے بینکنگ، انشورنس، ڈاک، کان کنی اور تعمیرات کے محکموں کے متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ کسانوں اور دیہی مزدوروں نے بھی اس میں شرکت کا عہد کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مزدور یونینوں کی جانب سے ۹ جولائی کو ایک ملک گیر ہڑتال ’بھارت بند‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ۲۵ کروڑ سے زائد کارکنان کی شرکت متوقع ہے۔ مرکزی ٹریڈ یونینز اور ان کے اتحادی اس ہڑتال کو حکومت کی ’’مزدور مخالف، کسان مخالف اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں‘‘ کے خلاف ایک جنگ قرار دے رہے ہیں۔ ۱۰ مرکزی ٹریڈ یونینز اور ان کی حلیف تنظیموں کے فورم نے تمام شعبوں کے کارکنان پر زور دیا ہے کہ وہ بند کو ’’ایک شاندار کامیابی‘‘ سے ہم کنار کریں۔ اطلاعات کے مطابق، رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں میں بند کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ ۹ جولائی یعنی کل بھارت بند کی وجہ سے بینکنگ، انشورنس، پوسٹ، کان کنی اور تعمیرات کے محکموں کے متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ کسانوں اور دیہی مزدوروں نے بھی اس میں شرکت کا عہد کیا ہے جس سے ملک بھر میں عوامی خدمات میں بڑے پیمانے پر خلل پڑنے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھئے: آگرہ: یوم عاشورہ پر فلسطینی پرچم لہرانے پر مسلم نوجوان حراست میں

اس فورم میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس، انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس، ہند مزدور سبھا، سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز، آل انڈیا یونائیٹڈ ٹریڈ یونین سینٹر، ٹریڈ یونین کوآرڈینیشن سینٹر، سیلف ایمپلائیڈ ویمنز ایسوسی ایشن، آل انڈیا سینٹرل کونسل آف ٹریڈ یونینز، لیبر پروگریسو فیڈریشن اور یونائیٹڈ ٹریڈ یونین کانگریس شامل ہیں۔ این ایم ڈی سی لمیٹڈ اور دیگر غیر کوئلہ معدنیات، اسٹیل، ریاستی سرکاری محکموں اور پبلک سیکٹر کمپنیوں کے یونین لیڈران نے اپنی شرکت کی تصدیق کے نوٹس پہلے ہی دے دیئے ہیں۔

ٹریڈ یونینز کا کہنا ہے کہ وہ ’پبلک سیکٹر کمپنیوں اور عوامی خدمات کی نجکاری، خدمات کی خارجی ذرائع سے تکمیل، کنٹریکٹرائزیشن اور عارضی کارکن کی پالیسیوں‘ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک بیان میں، فورم نے بتایا کہ اس نے گزشتہ سال وزیر محنت منسکھ منڈویہ کو ۱۷ مطالبات کا ایک چارٹر پیش کیا تھا لیکن حکومت اس سلسلے میں کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان مطالبات میں بے روزگاری کو حل کرنا، منظور شدہ آسامیوں کے تحت خالی جگہوں کو پر کرنا، مزید ملازمتیں پیدا کرنا، منریگا کے تحت کام کے دنوں اور معاوضے کی تعداد میں اضافہ کرنا اور شہری روزگار کیلئے اسی طرح کی قانون سازی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ارنب گوسوامی کے متنازع بیان پر پون کھیڑا نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا

حکومت پر کارکنان کے حقوق کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کا الزام لگاتے ہوئے یونینز نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے سالانہ لیبر کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا گیا ہے، جبکہ فیصلے کارکنان کے مفادات کے براہ راست خلاف ورزی میں لئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے ۴ لیبر کوڈز کے نفاذ کی کوششوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ’ٹریڈ یونین تحریک کو دبانے اور مفلوج کرنے، کام کے اوقات میں اضافہ کرنے، کارکنان کے اجتماعی سودے بازی اور ہڑتال کے حق کو چھیننے اور آجروں کی جانب سے لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں کو غیر مجرمانہ قرار دینے‘ کی کوشش قرار دیا۔ 

فورم نے مزید الزام لگایا کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، ضروری اشیاء کی آسمان چھوتی قیمتیں، گرتی ہوئی اجرتیں اور تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات پر اخراجات میں کٹوتیوں نے عدم مساوات کو گہرا کیا ہے جو غریبوں، کم آمدنی والے طبقے اور یہاں تک کہ متوسط طبقے کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ شہریت سے محرومی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یونینز نے حکومت پر مہاجر کارکنان کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظر ثانی کرنے والی ریاست بہار کی مثال پیش کی۔ ٹریڈ یونین کے لیڈران نے خبردار کیا کہ حکومت کے اقدامات کمزور طبقے سے ’’شہریت چھیننے‘‘ کی کوشش کے مترادف ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ووٹر لسٹ تنازع پر ۱۰؍ جولائی کو شنوائی، اپوزیشن متحد

سنیوکت کسان مورچہ اور زرعی مزدور یونینوں کے مشترکہ محاذ نے بھی ۹ جولائی کے بھارت بند کی حمایت کی ہے اور دیہی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK