سابق وزیر مالیات یشونت سنہا کےمطابق انڈیا اتحاد کو ’ہندی بیلٹ ‘ میں صرف ۱۰۰؍ سیٹوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے، عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ انتخابات سیمی فائنل نہیں تھے۔
EPAPER
Updated: December 06, 2023, 9:48 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سابق وزیر مالیات یشونت سنہا کےمطابق انڈیا اتحاد کو ’ہندی بیلٹ ‘ میں صرف ۱۰۰؍ سیٹوں پر محنت کرنے کی ضرورت ہے، عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ انتخابات سیمی فائنل نہیں تھے۔
بی جے پی نے غیرمتوقع طور پر چھتیس گڑھ اور ایم پی میں فتح حاصل کرکے کانگریس کو ہزیمت سے دوچار کیا ہے جبکہ راجستھان میں روایت کے مطابق سرکار کی تبدیلی نے اسے اقتدار میں پہنچادیا ہے۔ ان نتائج کے بعد بجا طور پر ماہرین سیاسیات اور بڑی حد تک ووٹرس بھی کانگریس اور انڈیا اتحاد کونوشتہ دیوار پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن بی جے پی کے سابق لیڈر اور ملک کے سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا نے گزشتہ روز ستیہ ہندی نیوز پورٹل پر ڈاکٹر مکیش کمار سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل واضح انداز میں کہا کہ ۳؍ ریاستوں کے نتائج انڈیا اتحاد کو کہیں سے بھی متاثر نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’راجستھان میں حکومت کی تبدیلی طے تھی ، اس میں بی جے پی کی لہر یا مودی کا کوئی زور نہیں ہے۔ وہاں گزشتہ ۳؍ دہائیوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے جبکہ چھتیس گڑھ میں میرےحساب سے کانگریس ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئی ۔ جہاں تک ایم پی کی بات ہے وہاں اتنی شدید حکومت مخالف لہر کے باوجود بی جے پی کی اتنی بڑی فتح اچنبھے میں ضرور ڈالتی ہے لیکن اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے جو تجزیہ کیا وہ یہی ہے کہ ۳؍ ریاستوں میں شکست سے انڈیا اتحاد کے قومی منظر نامے پر کوئی فرق نہیں پڑے گابلکہ اس کے ذریعے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن کو اپنی صف بندی دوبارہ اور منظم طریقے سے کرنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں شکست سے انڈیا اتحاد کو ہی فائدہ ہوا ہے کیوں کہ اب کانگریس تھوڑی کمزور ہو گی اور وہ تمام اتحادیوں کو برابر کا درجہ دے گی۔
ڈاکٹر مکیش کمار سےگفتگو کے دوران یشونت سنہا نے انڈیا اتحاد کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ ہندی بیلٹ کہلانے والی ریاستوں میں ۲۰۰؍ میں سے صرف ۱۰۰؍ سیٹوں پربھرپور محنت کرلے۔ اگر وہ یہاں ۱۰۰؍ سیٹیں جیت جاتا ہے تو باقی سیٹوں کی بھرپائی جنوبی ہند اور مشرقی ہند کی ریاستوں سے کی جاسکتی ہے۔ یشونت سنہا کا یہ مشورہ بھی اہم ہے کہ انڈیا اتحاد کو ان سیٹوں پر خاص طور پر دھیان دینا چاہئے جو بی جے پی سے آسانی سے چھینی جاسکتی ہیں۔ انہوںنے یہ مشورہ بھی دیا کہ کانگریس سمیت انڈیا اتحاد کی تمام پارٹیوں کو بوتھ مینجمنٹ پر دھیان دینا ہو گا۔ بی جے پی اسی میدان میں ان سے آگے نکل جاتی ہے۔ابھی انڈیا اتحاد کے پاس ۴؍ ماہ کا وقت ہے۔ اس میں وہ الیکشن لڑنے کیلئے وسائل بھی اکٹھا کرسکتے ہیں اور بوتھ مینجمنٹ کو بھی بہتر بناسکتے ہیں۔
ادھر اس معاملے میںنیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی کم و بیش یہی بات دہرائی کہ حالیہ انتخابات میں ملک کی تین ریاستوں میں بی جے پی کی جیت کانگریس کی ناکامی ہے لیکن انڈیا اتحاد کی شکست قطعی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات الائنس کے طور پر نہیں لڑے گئے تھے بلکہ اتحادکی تمام پارٹیوں نے اپنے طور انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ عمر عبداللہ کا یہ طنز بھی حق بجانب ہے کہ بی جے پی جب ریاستی انتخابات میں ہارتی ہے تو کہتی ہے کہ اس سے مرکزی انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور جب جیت حاصل کرتی ہے تو کہتی ہے کہ یہ مودی اور مرکز کی جیت ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ `تین ریاستوں میں بی جے پی کی جیت سیمی فائنل ہے یا نہیں اس کا اندازہ پانچ برس پہلے کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جب کانگریس نے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انتخابات جیتے تھے لیکن پھر پارلیمانی الیکشن ہارگئی تھی ۔ `انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں کچھ میں شکست ہوتی ہے تو کچھ میں فتح بھی ہو تی ہے۔
اس بارے میںجے ڈی یو کے سینئر لیڈر اور بہار کے وزیر خزانہ وجے کمار چودھری نے یہ مشورہ دیا کہ اس شکست سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ قومی موضوع پر لڑے گئے انتخابات نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا ‘کی تمام جماعتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور تین ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات کے نتائج کے اشاروں کو سمجھیں۔ ہندی پٹے کی ان تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے واضح اشارہ مل گیا ہے۔اگر پارٹیاںاسے سمجھیں تو یہ انڈیا کے مفاد میں ہوگا ۔
ہر چندکہ انتخابی نتائج نے کانگریس اور کانگریس کی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن اگر اقتدار سے بڑھ کر ملک کا مفاد اس کی فکر ہے تو پھر پارٹی کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس نے جو مسائل ان انتخابات کے دوران اٹھائے ہیں ان پر اس کو قائم رہنا چاہئے کیونکہ کانگریس کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کا سیدھا تعلق عوام سے ہے۔ کانگریس نے ملک کے نظریہ کو جو اہمیت دی ہے اس پر برقرار رہنا ملک کے مفاد میں ضروری ہے۔ انتخابی نتائج سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔