Inquilab Logo

انڈونیشیا : زلزلہ کے بعد قیامت صغریٰ کامنظر، ہر طرف لاش اور ملبہ

Updated: November 23, 2022, 11:35 AM IST | Agency | Jakarta

اسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی، جاوا کے تمام اسپتال بھر گئے، لوگ اسپتال کے سامنے کھلے آسمان کے نیچے علاج معالجہ پر مجبور ہیں ۔ زلزلے میں مرنےو الوں کی تعداد ۲۶۸؍ سے زائد ہوگئی اکثر اسکولی بچوں نے جان گنوائی جو اسکول کے بعد اسلامی تعلیم کے درس میں شریک تھے۔ سڑکیں بند ہونے اور بجلی منقطع ہونے سے امدادی کارروائی میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے

Mothers with their children outside a hospital in Sianjur.Picture: PTI
سیانجور کے ایک اسپتال کے باہر مائیں اپنےبچوں کے ساتھ ۔ اسپتال میں جگہ نہیں ہےجس کےسبب یہاں علاج کرنا پڑرہا ہے۔ تصویر :اےپی/ پی ٹی آئی

 انڈونیشیا میں  قیامت خیز زلزلے کے ایک د ن بعد بھی   سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جا و ا کے سیانجو ر قصبے میں  قیامت صغریٰ کا منظر  ہے ۔ افراتفری کا ماحول ہے،چاروں طرف لاشیں بکھری ہوئی ہیں ۔ اسی دوران  زخمیوں  کے متعلقین   اور امدادی کارکن  ان کے علاج معالجہ کیلئے دوڑ بھاگ کررہے ہیں۔ ملبے سے بھی چیخنے  اورمدد کیلئے پکارنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔  اپنے متعلقین کو کھونے والے غم میںڈوبے ہوئےہیں۔ منگل کو خبر لکھے جانے تک زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد ۲۶۸؍ ہوگئی ہے جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہیں۔  اب بھی مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے ، کیونکہ  تلاش اور راحت کاری میں مصروف  اہلکار مسلسل ملبے سے لاشیں  اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں  ۔ سڑکیں بند ہونے اور بجلی منقطع ہونے سے   امدادی کارروائی شدید دشواری ہورہی ہے۔    اسی طرح  زخمیوں کے علاج معالجہ میں دشواری ہورہی ہے ، کیونکہ اسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی ہے۔ 
 واضح رہے کہ جزیروں پر مشتمل ملک انڈونیشیا میں زلزلے  معمول کاحصہ ہیں لیکن کبھی کبھی یہ نہاہت ہلاکت خیز ثابت ہوتے ہیں۔ اگست ۲۰۱۸ء میں ۵۰۰ ؍سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے جبکہ ۲ ؍ہزار سے زائد زخمی اور ۳ ؍  لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔  میڈیارپورٹس کے مطابق مسجد وں اور اسلامی اقامتی اسکول ( بورڈ نگ اسکول) کےمشہور سیانجو ر قصبے میں  زلزلے سے متعدد عمارتیں گر گئیں اور ملبے میں بہت سے ا فراد دبے  گئے۔  منگل کو انڈونیشیا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے  کے ترجمان نے ہلاکت خیز زلزلے میں ۲۶۸؍ افراد کے  ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ ادھر سیکڑوں  زخمیوں کومختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔زخمیوں اور  مرنے والوںکی تعداد اندازےسے کہیں زیادہ ہونے کے  سبب اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی اور طبی عملہ کی  کمی کا بھی سامنا کرنا پڑرہا  ہے۔ جا وا کے تمام اسپتال بھر گئے ہیں۔  بہت سی تصاویر میں نظر آرہا ہے کہ مائیں اپنے زخمی بچوں کے ساتھ اسپتال کے باہر کھلے آسمان کے نیچے  رات گزار رہی ہیں۔ 
 ا س سلسلے میںمغربی جاوا کے گورنر رضوان کامل نے بتایا ،’’ زلزلے کے بعد بجلی منقطع ہوجانے کے  سبب اسپتال کے باہر کار پارکنگ ایریا میں زخمیوں کو طبی امداد دی گئی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا ،’’زلزلے کے بعد سیکڑوں ا فراد کو عمارتوں کے ملبے سے نکال کر اسپتال  لے جایا گیا جن میں سے بہت  سے افراد  اسپتالوں کے احاطے میں زیر علاج ہیں۔ ‘‘ ا ن کے مطابق راحت اور  تلاش کا سلسلہ پیر کو رات بھر جاری رہا تاکہ زیادہ سے زیادہ ا فراد کو بچایا جا سکے ۔جس علاقے میں زلزلہ آیا وہ گنجان آباد ہے۔ وہاںلینڈ سلائیڈنگ کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ زلزلے کے جھٹکوں سے کئی علاقوں میں مکان ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے  رضوان کامل نے یہ بھی بتایا ،’’ جو لوگ منہدم عمارتوں کے ملبے  میں دبے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر افراد کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ کچھ افراد اب بھی مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں ۔‘‘ اسکول کے وقت میں زلزلہ آنے کے سبب متاثرین میں اکثریت تعداد بچوں کی ہے۔ اس سلسلے میں گورنر کامل نے بتایا،’’ زلزلے میںہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر بچے ہیں جو سرکاری اسکولوں کے طالب علم  تھے۔ دن میں اسکول کی کلاسیں ختم کرنے کے بعد اسلامی تعلیم کیلئے مدارس کے درس میں شریک تھے۔‘‘ دریں اثناءانڈونیشیا کے ٹی وی چینل پر نشر ہونے والی ویڈیو اور تصاویر میں  سیانجور  کی بہت سی عمارتیں تقریباً مکمل طور پر تباہ  نظر آرہی ہیں۔ بہت سی تصاویر  سے پتہ چلتا ہے کہ سیانجور کی  فلک بوس عمارتیں بکھر گئی ہیں اور مضبوط سڑکوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔  اس دوران زلزلے سے جان بچا کر نکلنے والے  سیانجو ر کے  آگس ازہری   بتایا ،’’جب زلزلہ آیا تو  میں اپنی  معمر ماں کے ساتھ تھا اور شدید جھٹکوں نے چند لمحے میں میری پوری دنیا بدل ، سب کچھ برباد ہوگیا ، زلزلے  نے میرے کمرے کو تہ و بالا کر دیا۔  آس پاس دیواروں اور چھتوں کے بھی کچھ حصے گر گئے۔‘‘ ۱۹؍ سالہ نوجوان نےبتایا، `’’ میری ماں ملبے میں پھنس گئی تھی ، میں  اپنی ماں کا ہاتھ کھینچا اور ہم باہر بھاگے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے اپنے آس پاس  ایک بڑی تعداد کو مدد کیلئے پکارتے ہوئے بھی سنا۔‘‘ ا دھرجکارتہ میں عمارتیں لرزنے  ہی پر  کچھ افراد نے دفاتر کو خالی کر دیا۔ جنوبی جکارتہ میں ایک کارکن نے خبر رساں ادارے  اسوسی ایٹیڈ پریس( اے پی ) کو بتایا،’’ یہاں بھی زلزلے کے جھٹکے  محسوس کئے گئے۔ میں اور میرے ساتھیوں نے ہنگامی سیڑھیوں کا استعمال کیا اور نویں منزلے پر واقع اپنے دفتر سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘‘    دریں اثناءانڈونیشیا میں قدرتی آفت سے نمٹنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ کم از کم۱۵۰؍ افراد لاپتہ  ہیں ۔ ان کے ملبے  میں ہونے کا اندازہ ہے۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً۲؍ہزار مکانوں کو نقصان پہنچا  جبکہ۱۳؍ ہزار افراد کو راحتی مراکز میں لے جایا گیا ۔بجلی نہ ہونے کے سبب امدادی  کارروائی میں بھی شدید دشواری ہورہی ہے۔ زلزلے کے سبب ایک اسپتال  ، ایک اسلامی اقامتی اسکول کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی دیوار وں میں جگہ جگہ دراڑیں پڑگئی ہیں جبکہ کچھ کی چھتیں بھی گرگئی ہیں۔   اسی دوران  جابجا ر احت کیمپ   قائم کر دیئے گئے ہیں لیکن  وہاںکھانے پینے کی اشیاء  اور پینے کے پانی کی بھی کمی ہے۔  زخمیوں میں بھی بہت سے افراد کی حالت نازک ہونے کے سبب  مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔حکام کی جانب سے کہا گیا کہ زلزلے کے مرکز کے قریب افراد کو محتاط رہنا چاہئے کیونکہ  ابھی زلزلے کے بعد  کے جھٹکوں کا خطرہ  ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK