دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہونے سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ نے دو جنگیں بند کروانے کا وعدہ کیا تھالیکن ان میں ہند۔ پاک جنگ شامل نہیں تھی بلکہ وہ یوکرین اور غزہ کی جنگیں تھیں جو اَب بھی جاری ہیں۔
EPAPER
Updated: May 14, 2025, 12:56 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai
دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہونے سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ نے دو جنگیں بند کروانے کا وعدہ کیا تھالیکن ان میں ہند۔ پاک جنگ شامل نہیں تھی بلکہ وہ یوکرین اور غزہ کی جنگیں تھیں جو اَب بھی جاری ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ سرحدوں پر بندوقیں خاموش ہوگئیں،گولہ باری تھم گئی اورخون خرابہ بند ہوگیا۔ جنگ سے کسی کا بھلا نہیں ہوتاہے لیکن ہفتے کے دن جنگ بندی کا اعلان اتنا اچانک اور اتنے ڈرامائی انداز میں کیا گیا کہ لوگوں کو کچھ دیر تک یقین نہیں ہوا۔ ۲۲؍اپریل کو پہلگام میں پاکستانی دہشت گردوں کے ہاتھوں نہتے اور بے گناہ سیاحوں کے قتل کے بعد سے ملک کے طول و عرض میں اتنی جھوٹی اور گمراہ کن خبریں گشت کررہی ہیں کہ پہلے یہی لگا کہ سیز فائر کا اعلان بھی کوئی فیک نیوز ہوگا۔ ویسے بھی دشمن کو’’ مٹی میں ملادیں گے‘‘ کا وعدہ ا بھی پورا بھی نہیں ہوا تھا اس لئے ذہن میں یہ سوال اٹھنا فطری تھا کہ جنگ اچانک کیوں روک دی گئی؟ سوال یہ بھی پریشان کررہا تھا کہ سیز فائر کا اعلان دلی کے بجائے واشنگٹن سے کیوں کیا گیا؟ شملہ معاہدہ کے بعد سے ہمارا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک باہمی ایشو ہے اور ہم اسے خود ہی حل کرلیں گے۔ ہمیں کسی تیسرے فریق کی مداخلت یا مصالحت کسی قیمت پر منظور نہیں ہے۔ پھر ہم نے امریکی ثالثی قبول کیوں کی؟ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ’’ آپریشن سیندور‘‘ تو کامیابی سے چل رہا تھا، ہندوستانی جانبازوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کردیئے تھے اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہندوستانی فضائیہ گھس کر ماررہی تھی۔ میدان جنگ میں پاؤں تو پاکستانیوں کے اکھڑ رہے تھے تو پھر ہم نے جنگ بندی کے لئے حامی کیوں بھری؟ متعدد دفاعی ماہرین، تجزیہ کار اور ریٹائرڈ فوجی جنرل جنگ بندی پر سوال کیوں اٹھارہے ہیں؟ انہیں یہ کیوں محسوس ہورہا ہے کہ بھارتی افواج نے نہایت قلیل مدت میں ’’آپریشن سیندور‘‘کے ذریعہ جو شاندار کامیابیاں حاصل کی تھیں، سیاسی قیادت نے انہیں ضائع کردیا؟
برہما چیلانی جیسے معروف دفاعی ماہر کو یہ کیوں لگا کہ ہم جیتی ہوئی بازی ہار گئے۔’’ فوجی کاروائی پوری طرح سے ہندوستان کے حق میں جارہی تھی۔ ایسے وقت میں جنگ بند کرکے ہم نے فتح کے جبڑے سے شکست چھینی ہے۔‘‘سابق فوجی سربراہ وید ملک کو یہ دکھ کیوں ہے کہ تاریخ قوم سے پوچھے گی کہ فوجی آپریشن کے بعد ہندوستان کو کیا سیاسی اسٹریٹیجک فائدہ حاصل ہوا؟ سنیچر کے دن ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا Truth Social پر بڑے شان سے اعلان کیا کہ ساری رات امریکی مصالحت کے بعد ہندوستان اور پاکستان سیز فائر پر اضی ہوگئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ امریکی دباؤ کے آگے مودی حکومت نے جھک کر جنگ بندی قبول کی۔ اتوار کے دن ٹرمپ نے ایک نئے پیغام میںد عویٰ کیاکہ جنگ اگر بند نہ ہوتی تو بے پناہ تباہی ہوتی اور لاکھوں لوگ مارے جاتے۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر سیز فائرکا کریڈٹ اپنے نام کرنے کی خاطر یہ دعویٰ کیا کہ’’مجھے اس بات کا فخر ہے کہ امریکہ نے آپ دونوں کو اس تاریخی اور جرأت مندانہ فیصلہ پر پہنچنے میں مددکی۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے ہندوستان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کشمیر کے ہزار سالہ مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔
اس بات سے قطع نظر کہ کشمیر کا تنازع ہزار سال نہیں بلکہ ۷۸؍ سال پرانا ہے، ٹرمپ کے ان بیانات نے ایک بہت بڑا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے تو جنگ بندی کے لئے امریکہ کی پیش رفت کا فوراً خیر مقدم کردیا لیکن ہندوستان میں سناٹا چھاگیا۔ وزیر اعظم مودی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ یا وزیر خارجہ جے شنکر کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ پیر کی رات میں وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں ڈھیر ساری باتیں کیں لیکن امریکہ یا ٹرمپ کا نام تک نہیں لیا۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو پہلے یہ راگ الاپ رہے تھے کہ برصغیر میں جنگ سے امریکہ کاکوئی لینا دینا نہیں ہے ۔پھر ایسا کیا ہوگیا کہ ٹرمپ انتظامیہ جنگ بندی کرانے پر مصر ہوگئی؟ نیو یارک ٹائمز کے نامہ نگار کی مانیں تو جمعہ کے دن امریکی انٹلی جنس کو یہ اطلاع ملی کہ اگر برصغیر میں حالات مزید بگڑے تو روایتی جنگ جوہری جنگ کا روپ لے سکتی ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے مداخلت کرنا ضروری سمجھا۔ جمعہ کو جب ہندوستانی فوج نے راولپنڈی میں واقع نور خان ائر بیس پر حملہ کیا تو امریکی اہلکاروں کے ہوش اڑ گئے۔ یہ فوجی اڈہ پاکستان کے ملٹری ہیڈ کوارٹر میں واقع ہے۔
مودی جی کی تقریر سے کچھ دیرقبل ٹرمپ نے انڈیا۔ پاکستان سیز فائر پر اپنا تیسرا بیان جاری کردیا جس میں امریکی صدر نے دوٹوک کہہ دیا کہ انہوں نے برصغیر میں جوہری جنگ رکوائی ہے۔ مودی جی چاہتے تو قوم سے خطاب میں ٹرمپ کے ان دعوؤں کو مسترد کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی خاموشی کا کیا مطلب نکالا جائے؟ اہم سوال یہ بھی ہے کہ مودی جی نے یہ کیوں کہا کہ بھارت، پاکستان کے جوہری بلیک میل کے آگے نہیں جھکے گا؟
ٹرمپ نے اپنے پہلے ٹرم میں بھی کشمیر تنازع کے حل کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں لیکن مودی حکومت نے اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا کیونکہ ہندوستان کو اصولی طور پر اس دوطرفہ ایشو پر کسی تیسرے ملک کی مداخلت قبول نہیں ہے۔ تو پھر امریکی مداخلت مودی جی نے کیسے قبول کرلی؟ برہما چیلانی کا خیال ہے کہ امریکی مشورے پر’’آپریشن سیندور‘‘کو تین دنوں میں ختم کردینے سے بین الاقوامی توجہ پاکستان کے ذریعہ سرحد پار سے کئے گئے دہشت گردانہ حملے کے بجائے مسئلہ کشمیر پر مرکوز ہوگئی ہے۔چیلانی کے مطابق ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی پیشکش سے یہ ظاہر ہے کہ اسلام آباد کے جھانسے میں آکر امریکی صدراوربین الاقوامی میڈیا دہشت گردی کے بجائے مسئلہ کشمیر کو حالیہ جنگ کا بنیادی اور مرکزی سبب سمجھنے لگے ہیں۔ ہندوستان کو جس بات سے سخت چڑ تھی اور جو پاکستان کی دیرینہ خواہش رہی ہے بدقسمتی سے اس وقت ٹھیک وہی بات ہوتی نظر آرہی ہے: کشمیر بین الاقوامی ایجنڈہ پر چھا گیا ہے۔
پس نوشت:ڈونالڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہونے سے کئی ماہ قبل دو جنگیں بند کروانے کا وعدہ کیا تھالیکن ان دو جنگوں میں ہند۔ پاک کی جنگ شامل نہیں تھی۔ یوکرین میں جنگ آج بھی جاری ہے اور غزہ میں ٹرمپ نے گرچہ جنوری میں سیز فائر کروادیا تھا لیکن بنجامن نیتن یاہو نے چند ہفتوں میں ہی جنگ بندی کی دھجیاں اڑا کر نہتے فلسطینیوں کاقتل عام دوبارہ شروع کروا دیا۔ اب ٹرمپ کی قسمت سے جنوبی ایشیاء کے دو پرانے دشمن ہمسائے آپس میں بھڑ گئے تو انہیں لگا کہ نوبیل انعام برائے امن کے حصول کا ان کا دیرینہ ارمان پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔