وزیراعظم مودی کے راجستھان دورہ سے قبل انہیں منا کر اسٹیج تک تو لایا گیا تھا لیکن خطاب کا موقع نہ دےکر ایک بار پھر انہیں ناراض کردیا گیا ، گروہ بندی کی شکار بی جے پی کسی چہرے کو سامنے لانے سے خوفزدہ۔
EPAPER
Updated: September 27, 2023, 9:28 AM IST | Inquilab News Network | Jaipur
وزیراعظم مودی کے راجستھان دورہ سے قبل انہیں منا کر اسٹیج تک تو لایا گیا تھا لیکن خطاب کا موقع نہ دےکر ایک بار پھر انہیں ناراض کردیا گیا ، گروہ بندی کی شکار بی جے پی کسی چہرے کو سامنے لانے سے خوفزدہ۔
آئندہ ایک دو ماہ میں جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں، ان میں راجستھان ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں اقتدار پر قابض ہونے کا بی جے پی خواب دیکھ سکتی ہے۔ راہل گاندھی نے بھی اس بات کااعتراف کیا ہے کہ وہاں پر مقابلہ سخت ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کیلئے پنگھٹ کی ڈگر آسان نہیں دکھائی دے رہی ہے۔اس کی وجہ بی جے پی لیڈروں کی گروہ بندی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہائی کمان کی جانب سے مسلسل نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے سابق وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا پارٹی سے ناراض چل رہی ہیں۔
ان کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہیں دوبارہ ناراض کردیا جاتا ہے۔ پیر کو وزیراعظم مودی کی راجستھان آمد سے قبل پارٹی میں وسندھرا راجے کے سخت حریف سمجھے جانے والے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت اُن کے گھر گئے تھے اور انہیں منا کر وزیراعظم کے اسٹیج تک لے آئے لیکن یہاں آکر وسندھرا راجے سندھیا کا موڈ ایک بار پھر خراب ہوگیا۔ انہیں امید تھی کہ پارٹی انہیں اہمیت دے گی اور عوام سے خطاب کیلئے کہے گی لیکن انہیں اس کا موقع نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ پھر سے ناراض ہوگئی ہیں۔ سندھیا کو پارٹی کیوں خاطر میں نہیں لارہی ہے،اس کی وجہ اس کی خوش فہمی بتائی جارہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ریاست کے عوام انتخابی ’روایت‘ کو برقرار رکھیں گے،اسلئے اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
حالانکہ بی جے پی یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہوگی کہ ۵؍ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود راجستھان میں کانگریس کی پوزیشن مضبوط ہے۔ کانگریس کے پاس سینئر لیڈر اور چیف منسٹر اشوک گہلوت کے ساتھ ہی متحرک نوجوان لیڈر سچن پائلٹ کی طاقت بھی ہے۔ اس وقت دونوں پوری طرح سے متحد ہوکر عوام کے سامنے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کئی خیموں میں منقسم ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے اور ان کے حامیوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ پارٹی کی جانب سے انہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہاہے۔ حالانکہ ایک طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی یہ ایک سوچی سمجھی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے ۔ بی جے پی کو خوف اس بات کا ہے کہ کسی ایک لیڈر کے چہرہ آگے کرنے کی وجہ سے دوسرے خیمے پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا سندھیا کودور رکھنا پارٹی کی حکمت عملی ہے یا ان کے خلاف کوئی سازش ہے۔
خیال رہے کہ راجستھان میں گزشتہ۶؍ اسمبلی انتخابات سے ایک روایت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس دوران ریاست میں بی جے پی اور کانگریس باری باری اقتدار میں آتی رہی ہیں۔ بی جے پی نے۱۹۹۳ء کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد بھیروں سنگھ شیخاوت کی قیادت میں راجستھان میں حکومت بنائی تھی۔ اس کے بعد سے کوئی بھی پارٹی راجستھان میں لگاتار دو بار الیکشن نہیں جیت سکی ہے۔ اس روایت کے لحاظ سے اس بار بی جے پی کی باری ہے اور کہا جاتا ہے کہ بی جے پی اسی وجہ سے مطمئن ہے۔ یہ بی جے پی کیلئے ایک پلس پوائنٹ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اسے یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئےکہ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کی مشترکہ طاقت کے سامنے گزشتہ۶؍ بار سے چلی آرہی روایت کو برقرار رکھنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ آج کی تاریخ میں اس طرح کی ’روایت‘ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس کی ایک مثال اترپردیش میں دیکھی جاچکی ہے جہاں برسوں بعدبی جے پی ہی نے دوبارہ اقتدار میں واپسی کی ہے۔