ایک اردو اسکول کی طالبہ کلاس روم میں چکرا کر گر گئی، پتہ چلا کہ رات سے اس نے کچھ نہیں کھایا، گھر میں کھانے کو کچھ تھا ہی نہیں، اس کے والد راستے پر چھوٹا موٹا دھندا لگاتے تھے لیکن ایک ہفتہ سے حکام نے منع کردیا۔
EPAPER
Updated: June 15, 2025, 12:52 AM IST | Hamed Iqbal Siddiqui | Mumbai
ایک اردو اسکول کی طالبہ کلاس روم میں چکرا کر گر گئی، پتہ چلا کہ رات سے اس نے کچھ نہیں کھایا، گھر میں کھانے کو کچھ تھا ہی نہیں، اس کے والد راستے پر چھوٹا موٹا دھندا لگاتے تھے لیکن ایک ہفتہ سے حکام نے منع کردیا۔
ایک اردو اسکول کی طالبہ کلاس روم میں چکرا کر گر گئی، پتہ چلا کہ رات سے اس نے کچھ نہیں کھایا، گھر میں کھانے کو کچھ تھا ہی نہیں، اس کے والد راستے پر چھوٹا موٹا دھندا لگاتے تھے لیکن ایک ہفتہ سے حکام نے منع کردیا۔ ایک اور اردو اسکول کی معلمہ نے بتایا کہ ساتویں جماعت میں پڑھنے والی دو بہنیں نہ ہوم ورک کرتی تھیں اور نہ ہی انہیں کچھ یاد رہتا تھا، بارہا ان کے والدین کو بلایا گیا لیکن وہ نہیں آئے، جب بچیوں کی کونسلنگ کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کے والد گھر کے آگے کباب پاؤ اور چائے بیچتے ہیں، شام کو اسکول سے چھوٹنے کے بعد سے رات دیر گئے تک یہ بچیاں پلیٹیں اور چائے کے گلاس دھوتی ہیں اسی لئے انہیں اسکول کے بعد پڑھنے یا ہوم ورک کرنے کا وقت نہیں ملتا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اب اردو اسکولوں میں زیادہ تر طلبہ نہایت غریب گھروں سے آتے ہیں، تھوڑی سی بھی بہتر مالی حالت کے حامل والدین اب اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں پڑھارہے ہیں یا پڑھانا چاہتے ہیں۔ اردو اسکولوں کے ان غریب طلبہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ اکثر بھوکے پیاسے اسکول جاتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کھانے کیلئے کبھی کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ بہت ہی ذہین طلبہ اسکول یونیفارم، اسکول بیگ، کاپی، جیومیٹری باکس، کتاب، جوتے، رین کوٹ، چھتری، بال پین، پنسل، ڈرائنگ اور دیگر ضروری اشیاء نہ ہونے کی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا ان پر نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے اور ان کی ذہانت رفتہ رفتہ ماند پڑ جاتی ہے۔
کل، ۱۶؍ جون سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہورہا ہے۔ اردو اسکولوں میں پڑھنے والے زیادہ تر طلبہ کے والدین یقیناً فکر مند ہونگے کہ متفرق فیس اور دیگر تعلیمی ضروریات کیلئے پیسے کہاں سے لائیں، کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔کچھ اہلِ خیر افراد اور ادارے تھوڑی بہت تعلیمی اشیاء یا کچھ طلبہ کی متفرق فیس کا انتظام کر دیتے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ کچھ اساتذہ بھی انتہائی خاموشی سے اپنی بساط کے مطابق اپنے اسکول کے ضرورت مند طلبہ کو اپنی جانب سے ضروری چیزیں فراہم کرتے رہتے ہیں، یہ قابلِ ستائش اور لائقِ تقلید کام ہے لیکن یہ نجی کوششیں ناکافی ہیں۔
دو ماہ قبل رمضان میں ذی حیثیت مسلمانوں نے زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کے طور پر بڑی بڑی رقمیں غریب افراد اور اداروں کو دیں، گزشتہ ہفتے عید الا ضحی پر بھی حسبِ حیثیت قربانیاں کیں اور سنّتِ ابراہیمیؑ ادا کی۔ اللہ کا شُکر ہے کہ صرف ممبئی اور مضافات ہی میں ۳۰؍ فیصد سے زائد ایسے مسلمان ہیں جو کم از کم ایک طالب علم کی تمام تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، جو خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں لیکن ان کی توجہ اردو اسکولوں کے غریب اور مستحق طلبہ تک نہیں جاتی، عموماً لوگ ٹرسٹ یا فلاحی اداروں میں رقمیں جمع کروا کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
کیا اردو ذریعۂ تعلیم کے فروغ کیلئے، اردو طلبہ کی فلاح کیلئے، اردو اسکولوں کی بقا کیلئے تھوڑی سی زحمت گوارا نہیں کی جاسکتی؟ بہتر ہوگا کہ صاحبانِ خیر کچھ وقت نکال کر اپنے قریبی اردو اسکول جائیں، کلاس ٹیچرس سے غریب اور مستحق طلبہ کی فہرست حاصل کریں اور اس میں سے اپنی استطاعت کے مطابق ایک دو یا اور زیادہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کیلئے رقم یا اشیا ءاسکول کے ذمے دار افراد کے پاس جمع کروائیں۔ یہ اقدام نہ صرف باعثِ ثواب ہوگا بلکہ طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ میں بھی نیا جوش بھر دے گا۔
ہم انگلش اسکولوں میں بڑی بڑی رقمیں بطور ڈونیشن دے دیتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان اسکولوں میں نت نئے حیلے بہانوں سے سال بھر والدین سے رقمیں اینٹھی جاتی ہیں، ہمارے ہی پیسوں سے ان اسکولوں کی چکا چوند ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کئی اردو اسکولوں میں (خصوصاً سلَم ایریا میں یا چالیوں میں قائم اسکولوں میں) مالی دشواریوں کے سبب ڈھنگ کا انفرا اسٹرکچر نہیں ہوتا۔ ہم اپنے ان اسکولوں کو تو کبھی کچھ نہیں دیتے بلکہ ان کی بد حالی اور معیار پر انگلی اٹھاتے رہتے ہیں، ذرا غور کیجئے، قوم کا جتنا سرمایہ انگلش اسکولوں کی جھولی میں جاتا ہے اس کا بیس پچیس فیصد بھی اردو اسکولوں کے حصے میں نہیں جاتا۔ اردو کا دم بھرنا اور بات ہے اور اردو اسکولوں کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا دوستی بات۔ ہم اپنے قریبی اردو اسکولوں کو عطیات کیوں نہیں دیتے؟ یہاں کے مستحق طلبہ کی متفرق فیس ادا کرنا یا ان کی تعلیمی ضرورت کی اشیاء مہیا کردینا کوئی بہت بڑا کام ہے جو ہم سے نہیں ہوسکتا؟
ٹوٹا پھوٹا برسوں پرانا فرنیچر اور بلیک بورڈ، اُکھڑے ہوئے پلاسٹر والی سیلن زدہ دیواریں، جھولتے دروازوں اور رِستے ہوئے نلوں والے بد ترین بیت الخلاء، پنکھوں اور ٹیوب لائٹوں سے محروم کلاس روم، بوسیدہ اسٹاف روم، پھٹے ہوئے ڈرینیج پائپ، ضروری آلات سے محروم سائنس لیباریٹری، دھول میں اٹی کرِم خوردہ کتابوں پر مشتمل نئی اور معلوماتی کتابوں سے محروم مطالعہ گاہ (لائبریری)، یہ سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ دیکھو! یہ ہیں وہ اردو اسکول جن کے معیار کا تم مذاق اُڑاتے ہو، جن میں پڑھنے والے بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتے ہو، اساتذہ کی محنتوں کو طنز کا نشانہ بناتے ہو، ایسے اساتذہ کا جو اس بدحالی کے عالم میں پورا سال گزارتے ہیں، لوگوں کی، انتظامیہ کی، محلے کے ٹٹ پونجئے نیتاؤں اور چھوٹے چھوٹے غنڈوں کی لعن طعن برداشت کرتے ہیں اور ان سب کے باوجود بالکل ناخواندہ اور انتہائی غریب گھرانوں کے بچوں کو اس لائق بنادیتے ہیں کہ وہ بورڈ امتحانات میں ۹۰-۸۰؍ فیصد مارکس لے آتے ہیں، کیا ان کی خدمات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
آئیے ہم اپنی سوچ کو بدلیں، اپنے گھروں میں بیٹھ کر اردو اسکولوں اور ان کے اساتذہ پر طنز کرنے اور مذاق اُڑانے کی بجائےان کے معیار کو بلند کرنے کیلئے معاون بنیں، اپنی قوم کے ان اداروں کی قدر کریں اور ان کو مضبوط بنائیں۔ اردو جو آج ملک بھر میں عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اس کے تعلیمی منظر نامے کو خود اعتمادی کے ساتھ ایک نئی وسعت دینے کی کوشش کریں۔n