غزہ میں اسرائیل کے ذریعے انسانی حقوق کی ’ممکنہ خلاف ورزیوں‘ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کو ان کی مکمل تحقیقات کرنے میں ”کئی سال“ لگ سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 31, 2025, 9:42 PM IST | Washington
غزہ میں اسرائیل کے ذریعے انسانی حقوق کی ’ممکنہ خلاف ورزیوں‘ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کو ان کی مکمل تحقیقات کرنے میں ”کئی سال“ لگ سکتے ہیں۔
 
                                ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے دو امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ غزہ میں اسرائیل نے انسانی حقوق کی ’سیکڑوں ممکنہ خلاف ورزیاں‘ کی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی حکومتی نگران ادارے کے ایک خفیہ جائزے میں انکشاف ہوا کہ اسرائیلی افواج نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کے قوانین کی ”سیکڑوں ممکنہ خلاف ورزیاں“ کی ہوں گی۔ یہ رپورٹ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی سے کچھ دیر پہلے مکمل کی گئی تھی جو ۱۰ اکتوبر سے نافذ العمل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نےالقدس میں مزید ۱۳۰۰؍ غیرقانونی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی منظوری دی
اطلاعات کے مطابق، محکمہ خارجہ کے دفتر برائے انسپکٹر جنرل (او آئی جی) کے خفیہ جائزے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے انسانی حقوق کی ’ممکنہ خلاف ورزیوں‘ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ محکمے کو ان کی مکمل تحقیقات کرنے میں ”کئی سال“ لگ سکتے ہیں۔ یہ نتائج پہلی بار امریکی حکومت کے کسی دستاویز میں اسرائیل کے ممکنہ مظالم کے پیمانے کو تسلیم کرتے ہیں جو لیہی قوانین کے تحت آ سکتے ہیں۔ لیہی قانون امریکہ کو ان غیر ملکی یونٹوں کو فوجی امداد فراہم کرنے سے روکتا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
حکام نے بتایا کہ اس رپورٹ نے جواب دہی کے متعلق سنگین خدشات کو جنم دیا ہے، خصوصاً اس لئے کہ اسرائیلی اقدامات کا جائزہ اکثر اسرائیل کی اپنی اندرونی تحقیقات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے سابق عہدیدار چارلس بلاہا، جو لیہی قانون کے معاملات کو سنبھالتے تھے، نے کہا کہ ”مجھے خدشہ ہے کہ اب چونکہ تنازع کا شور کم ہو رہا ہے، اس لئے جواب دہی کو فراموش کر دیا جائے گا۔“
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر اسرائیلی حملوں کے سبب جنگ بندی پر سوالیہ نشان، قطر نے مذمت کی
’اسرائیل کو استثناء‘
لیہی قوانین عام طور پر ایک واحد قابل اعتبار الزام کی بنیاد پر کسی غیر ملکی فوجی یونٹ کو امداد معطل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ تاہم، رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ اسرائیل کے معاملے میں علیحدہ اور نرمی سے چھان بین کی جائے گی جس کے تحت امداد پر پابندی لگانے سے پہلے اعلیٰ سطحی اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔ محکمہ خارجہ کے سابق عہدیدار جوش پال نے کہا کہ ”اب تک، امریکہ نے واضح ثبوت کے باوجود کسی بھی اسرائیلی یونٹ کو کوئی امداد نہیں روکی ہے۔“