ایران-اسرائیل جنگ پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ردعمل، کہا:ایران کے منہ توڑ جواب پر ظالم اسرائیل کو حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی یاد آئی۔
EPAPER
Updated: June 23, 2025, 11:32 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
ایران-اسرائیل جنگ پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ردعمل، کہا:ایران کے منہ توڑ جواب پر ظالم اسرائیل کو حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی یاد آئی۔
ایران- اسرائیل جنگ پر مختلف شعبوں سے وابستہ افراد نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اسرائیل کے حملوں کا ایران کے میزائلوں کے ذریعے دیئے جانے والے زبردست جواب پر اسے حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی یاد آئی۔ بموں کی بارش کرکے غزہ کو برباد کردینے والے طاقت کے نشے میں چور اسرائیل کے جب اپنے وجود پر بات آئی تو ظالم کو درد محسوس ہوا اور وہ مدد کیلئے پکار رہا ہے۔ نمائندہ انقلاب نے جب بات چیت کی تو محسوس ہوا کہ تقریباً ہرشعبے کے لوگ ان خبروں پر باریکی سے نگاہ رکھتے ہیں اور زبردست تبصرہ کرتے ہیں۔
شمیم خان (ایڈ فلم میکر ) نے کہا کہ’’ ایران نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا ہے اور اس وقت ظالم کو اسی کے انداز میں سزا مل رہی ہے۔ پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے خود کو انتہائی طاقتور بتانے والے عیار اسرائیل نے یہ سوچا تھا کہ اس نے ایران پر حملہ کرکے اس کے ٹاپ کمانڈرز اور سائنسدانوں کو مارکر گویا اسے نیست ونابود کردیا ہے مگر ایران نے۲۴؍ گھنٹے کے اندر جس طرح پلٹ وار کیا اور مسلسل حملے کررہا ہے، اس سے اسرائیل گھنٹے ٹیکنے اور اپنی سلامتی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ کا ماسٹر مائنڈ امریکہ ہے لیکن اس کو بھی راست طور پر جنگ میں کودنے کیلئے کئی بار سوچنا پڑا۔ نارتھ کوریا، روس اور چین وغیرہ کی مداخلت سے تیسری جنگ عظیم سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ایسے میں حالات سنبھالنا انتہائی مشکل ہوگا۔ ‘‘
شہاب الدین خان (تاجر ) نے کہا کہ ’’سچائی یہ ہے کہ ایران کو کچھ نہ سمجھنے والے اسرائیل کو اس نے ایسا زخم دیا ہے اور مسلسل دے رہا ہے جو اس سے پہلے کسی نے اسے نہیں دیا تھا۔ اسے اپنے آئرن ڈوم، میزائل نظام، جدید ٹیکنالوجی اور خفیہ ایجنسی پر بڑا ناز تھا اور اسی کے نام پر وہ دنیا کو مسلسل بیوقوف بنارہا تھا، ایران نے وہ سارا بھرم اس طرح توڑا کہ اسے اپنی کمر سیدھی کرنے میں برسوں لگیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ظالم اسرائیل حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی دہائی دے رہا ہے جو آج بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور تمام تر مخالفت اور انتباہ کے باوجود اس کی نگاہ میں حقوق انسانی اور عالمی قوانین یا اقوام متحدہ کی کوئی حیثیت نہیں رہی، سبھی کو ٹھینگا دکھاتا رہا لیکن اس جنگ کی یہ بھی سچائی ہے کہ آگے ایران کی راہ بھی آسان نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔ ‘‘
فخرالدین شیخ (سول کنٹریکٹر) نے کہا کہ ’’جس طرح کی خبریں مل رہی ہیں، اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ بچوں، جوانوں، بزرگوں، خواتین اور اسپتالوں ، مساجد اور شہری علاقوں کو برباد کرنے والے اسرائیل کو ایران نے ایسا زخم دیا ہے جسے اس کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بڑا مسئلہ منافقت پر آمادہ پاکستان اور عرب ممالک کا ہے۔ اس موقع پر اگر وہ ایک ہوجائیں تو شاید پھر اسرائیل کبھی سر نہ اٹھاسکے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے اور امریکہ اور دیگر یورپی ممالک اپنے مفاد کے برعکس ایسا ہونے دیں گے، یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ‘‘
سعید احمد انصاری (بی ایم سی اسکول ٹیچر) نے کہا کہ ’’اسرائیل- ایران جنگ کے کئی پہلو ہیں۔ اوّل یہ کہ اسرائیل نے بڑی منصوبہ بندی سے ایران پر ہوائی حملہ شروع کردیا گیا جس سے فلسطین کو مستقل ریاست تسلیم کرنے کے تعلق سے ہونے والا اہم فیصلہ معلق ہوگیا۔ دوسرے اس نے ایران کو کمزور سمجھنے کی بھیانک غلطی کی۔ تیسرے امریکہ ایران کو ڈرارہا ہے اور خود ڈربھی رہا ہے کہ کہیں ایرانی میزائلوں کا رخ اس کے فوجی اڈوں کی جانب نہ گھوم جائے، ایسے میں ٹرمپ کے لئے اپنے عوام کو جواب دینا مشکل ہوگا۔ چوتھے ایران کا زبردست نقصان تو ہوا ہے مگر اسرائیل میں جو تباہی مچی ہے اور چن چن کر جس طرح اہم تنصیبات اور مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، آج بھی اگر جنگ بند ہوجائے تو تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل کو دوبارہ اسے بنانے میں دس برس سے زائد وقت لگے گا۔ پانچویں اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو تیسری عالمی جنگ سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بڑی تباہی کا باعث ہوگی۔ ‘‘
مولانا نوشاد احمد صدیقی نے کہا کہ ’’ظالم اسرائیل کی پکڑ کا قدرت کی طرف سے وقت آگیا ہے۔ ایران نے اپنے زبردست نقصان کے باوجود جس بہادری اور دلیری سے مسلسل حملے کئے ہیں، اس سے اسرائیل کو بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا ہے۔ اسرائیلی بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اب اس جنگ میں امریکہ بھی شامل ہوگیا ہے اور اس نے بھی بمباری کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کے حملوں میں مزید شدت آگئی ہے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا دو حصوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ امریکی صدر ٹرمپ ہوش مندی کا مظاہرہ کریں ورنہ حالات حددرجہ دھماکہ خیز ہوسکتے ہیں۔ ‘‘