Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ: امدادی بحری جہاز’’میڈلین‘‘ کو اسرائیل نے روکا، سامان ضبط، عملہ گرفتار

Updated: June 09, 2025, 5:05 PM IST | Tal Aviv

اسرائیلی فورسیز نے امدادی کشتی "میڈلین" کو بحیرۂ روم میں روک کر اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ کشتی پر ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن سمیت ۱۲؍افراد سوار تھے۔ اسرائیل نے اس اقدام کو "پروپیگنڈا مشن" قرار دیا ہے، جبکہ کشتی کی تنظیم نے اسے ’’غیر قانونی حراست اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا ہے۔

The crew on board the boat have both hands raised. Photo: X
کشتی میں سوار عملہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے ہے۔ تصویر: ایکس

اتوار کو اسرائیلی حکام نے بتایا کہ اسرائیلی فورسیزنے ایک ایسی کشتی کو روک دیا ہے جو غزہ کی پٹی پر عائد بحری ناکہ بندی کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کشتی پر موجود۱۲؍ افراد بشمول ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اب اسرائیل کے ایک بندرگاہ کی طرف روانہ ہیں۔ یہ کشتی، جس کا نام’’میڈلین‘‘ ہے اور جو برطانوی پرچم تلے چلتی ہے، فلسطین حامی تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) کے زیر انتظام ہے۔ اس کا مقصد غزہ کیلئے امداد کی ایک علامتی کھیپ پہنچانا اور وہاں جاری انسانی بحران کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانا تھا۔ تاہم، ایف ایف سی نے پیر کو اپنے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر بتایا کہ کشتی کو ساحل پر پہنچنے سے قبل ہی علی الصبح روک لیا گیا۔ بعد ازاں اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی کہ کشتی اب ان کے کنٹرول میں ہے۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا:’’مشہور شخصیات کی ’سیلفی یاٹ‘ بحفاظت اسرائیل کے ساحل کی طرف جا رہی ہے۔ مسافروں کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔ ‘‘وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ تمام مسافر محفوظ اور صحیح سلامت ہیں، انہیں ’’سینڈوچز اور پانی‘‘ فراہم کیا گیا۔ 
دوسری جانب ایف ایف سی نے اسرائیل پر ’’زبردستی راستہ روکنے‘‘ کا الزام لگایا۔ تنظیم نے بیان دیا:’’کشتی پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا، اس کے غیر مسلح شہری عملے کو اغوا کیا گیا اور اس کے جان بچانے والے سامان – بشمول بچوں کا دودھ، خوراک اور طبی امداد – کو ضبط کر لیا گیا۔ ‘‘فریڈم فلوٹیلا کی ایک منتظم حویدہ عراف نے کہا:’’اسرائیل کو کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں کہ وہ کشتی ’میڈلین‘ پر موجود بین الاقوامی رضاکاروں کو حراست میں لے۔ یہ رضاکار اسرائیلی دائرۂ اختیار میں نہیں آتے اور نہ ہی ان پر کسی امدادی مشن یا ناکہ بندی چیلنج کرنے پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ ان کی گرفتاری خودسرانہ، غیرقانونی ہے اور فوری طور پر ختم ہونی چایئے۔ ‘‘کشتی کے عملے میں سوئیڈش ماحولیاتی مہم کار گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن بھی شامل ہیں۔ 
ریما حسن نے ’’ایکس‘‘پر لکھا:’’فریڈم فلوٹیلا کے عملے کو صبح ۲؍ بجے بین الاقوامی پانی میں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا۔ ‘‘ اس کے ساتھ ایک تصویر بھی جاری کی گئی جس میں عملہ کشتی پر لائف جیکٹ پہنے ہوئے، ہاتھ اوپراٹھائے بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ یاٹ ایک چھوٹا سا امدادی سامان لے کر جا رہی تھی، جس میں چاول اور بچوں کا دودھ شامل تھا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے مطابق، ’’جو تھوڑی سی امداد یاٹ پر موجود تھی اور مشہور شخصیات نے استعمال نہیں کی، وہ غزہ کو اصل انسانی ہمدردی کے چینلز کے ذریعے منتقل کی جائے گی۔ ‘‘اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے فوج کو ہدایت دی تھی کہ وہ کشتی کو غزہ پہنچنے سے روکے۔ ان کے بقول، ’’یہ مشن حماس کی حمایت میں پروپیگنڈا ہے۔ ‘‘
یاد رہے کہ اسرائیل نے۲۰۰۷ء میں جب حماس نے غزہ پر کنٹرول حاصل کیا، تب سے ہی غزہ پر بحری ناکہ بندی نافذ کی ہوئی ہے۔ یہ ناکہ بندی کئی جنگوں کے دوران برقرار رہی ہے، بشمول موجودہ جنگ، جو۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق ۱۲۰۰؍ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک ۵۴؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی۲۰؍ لاکھ سے زائد آبادی شدید قحط کا سامنا کر رہی ہے۔ اسرائیلی حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ناکہ بندی حماس تک ہتھیاروں کی رسائی روکنے کیلئے ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز نے ایف ایف سی کی اس کارروائی کی حمایت کی اور اتوار کو مزید کشتیوں سے ناکہ بندی توڑنے کی اپیل کی۔ انہوں نے ایکس پر لکھا:’’میڈلین کا سفر ختم ہو سکتا ہے، مگر مشن ختم نہیں ہوا۔ ہر بحیرہ روم کی بندرگاہ سے غزہ کیلئےامدادی اور یکجہتی کی کشتیاں روانہ ہونی چاہئیں۔ ‘‘
میڈلین کشتی پر سوار جرمن کارکن کا ویڈیو پیغام:ہم اس لئے یہاں ہیں کیونکہ ہماری حکومتیں اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کر رہی ہیں"
غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے اور انسانی امداد پہنچانے کے مشن پر روانہ کشتی "مدلین" پر سوار جرمنی کی ایک کارکن یاسمین آچار نے اتوار کی رات ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی کارکن اس مشن کا حصہ اس لیے بنے ہیں کیونکہ ان کی حکومتیں غزہ پر اسرائیل کی "نسل کشی" کی کارروائیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یاسمین آکار نے اپنے انسٹاگرام پر ویڈیو میں کہا:"اسپتالوں پر بمباری، بچوں پر بمباری، یہ سب جنگی جرائم ہیں جنہیں ہم گزشتہ ۲۰؍مہینوں سے دیکھ رہے ہیں، اور اس لئے ہم یہاں موجود ہیں۔ ہماری حکومتیں یہ سب کچھ روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ نسل کشی اور غزہ کی غیر قانونی ناکہ بندی ختم نہیں کی گئی، اسی لیے ہم یہاں موجود ہیں۔ "انہوں نے بتایا کہ کشتی غزہ کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے اور اب تک کی ویڈیوز انہوں نے حذف کر دی ہیں تاکہ عملے کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔ 
انہوں نے کہا کہ چار اسرائیلی بحری جہاز ان کی کشتی کے گرد موجود ہیں، جن میں سے دو صرف۲۰۰؍ میٹر کے فاصلے پر آ چکے تھے۔ "آج جو کچھ ہوا، وہ گزشتہ آٹھ دنوں میں کبھی نہیں ہوا۔ اسی لیے ہم نے دوبارہ خطرے کا الارم بجایا۔ " انہوں نے یہ بھی کہا کہ ارد گرد بہت سی روشنیاں دکھائی دے رہی ہیں اور دو اسرائیلی جہازوں میں سے ایک کے پاس پلیٹ فارم بھی موجود ہے، اور وہ بغیر حرکت کے کھڑا ہے۔ "ہمیں یقین ہے کہ یہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے اور مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ "
یاسمین نے وضاحت کی کہ یہ مشن فلسطینیوں کو "بچانے" کیلئے نہیں بلکہ ان سے یکجہتی کے اظہار کیلئےہے۔ "فلسطینی خود کو آزاد کریں گے۔ ہم صرف یہ بتانے آئے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں، اپنے جسم، اپنی آواز اور اپنی یکجہتی کے ذریعے اس غیر قانونی ناکہ بندی کو چیلنج کریں گے اور بھوک کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ "انہوں نے "میڈلین" کو عالمی بیداری کی ایک چھوٹی جھلک قرار دیا اور دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کی:"اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کریں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ یہ وہ دنیا نہیں جس میں ہم جینا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں کیلئے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ""ہم یہ سب کچھ غزہ کے لیے کر رہے ہیں۔ وہاں کے بچوں کو بھی زندگی، آزادی اور وقار سے جینے کا حق حاصل ہے، جیسے آپ کے بچوں کو ہے۔ ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ "
یاسمین نے مزید کہا:"اصل کام یہ ہے کہ ہم اپنی حکومتوں کو روکیں کہ وہ اسرائیل کو جنگی جرائم کیلئے اسلحہ فراہم نہ کریں۔ "

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK