• Wed, 03 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل نے غزہ کی تباہی کو ڈرون میں قید کرنے والے صحافی محمود وادی کو ”محفوظ علاقے“ میں قتل کردیا

Updated: December 03, 2025, 8:04 PM IST | Gaza

وادی کے صحافیوں کی طرف سے شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذکورہ علاقے میں جہاں وادی کام کررہے تھے، اچانک دھماکہ ہوتا ہے جس کے بعد اس علاقے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

Mahmoud Wadi. Photo: X
محمود وادی۔ تصویر: ایکس

ڈرون فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی فضائی تصویر کشی کرنے کیلئے مشہور فلسطینی فوٹو جرنلسٹ محمود وادی منگل کو وسطی خان یونس میں ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس علاقے کو اکتوبر ۲۰۲۵ء کی جنگ بندی کے تحت ’محفوظ علاقہ‘ (Safe Zone) نامزد کیا گیا تھا۔ غزہ کے ۳۲ سالہ صحافی پر بانی سہیلہ کے علاقے میں اس وقت کیا گیا جب وہ بے گھر فلسطینیوں کے کیمپوں اور وسیع پیمانے پر تباہی کو فلمانے کیلئے اپنا ڈرون لانچ کررہے تھے۔ الناصر اسپتال کے ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ نام نہاد ”یلو لائن“ (Yellow Line) کے بفر زون سے بہت باہر، ایک کھلے شہری علاقے میں کام کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ: جنرل اسمبلی کا اسرائیل سے شام کی گولان پہاڑیوں سے انخلاء کا مطالبہ

غزہ کے صحت حکام نے الزام لگایا کہ جوان فلسطینی صحافی کو ’دانستہ طور پر نشانہ بنایا‘ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وادی کے جسم پر گولی لگنے کے مہلک زخم موجود ہیں۔ ان کی لاش الناصر اسپتال لائی گئی، جہاں خاندان کے افراد، ان کے ساتھی اور رہائشی سوگ منانے کیلئے جمع ہوئے۔ وادی کے ساتھی صحافیوں کی طرف سے شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذکورہ علاقے میں جہاں وادی کام کررہے تھے، اچانک دھماکہ ہوتا ہے جس کے بعد اس علاقے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس واقعے پر اسرائیلی فوج کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: عروہ حنین الریاس آکسفورڈ یونین کی پہلی فلسطینی صدر بن گئیں

وادی کی بے لوث خدمات

فوٹو جرنلسٹ بننے سے قبل، وادی ’القدس اسٹوڈیو‘ میں شادی کے ویڈیو گرافر تھے۔ انہوں نے غزہ بھر میں تقریبات کی فضائی فوٹیج تیار کی تھی۔ اپریل ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی حملے میں ان کا اسٹوڈیو تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد وہ مکمل طور پر جنگ کی فرنٹ لائن دستاویزی فلمیں بنانے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ان کا کام خیموں، بستیوں، تباہ شدہ محلوں اور بے گھر خاندانوں کی روزمرہ کی زندگی پر مرکوز تھا۔ ان کی آخری ڈرون فوٹیج میں مبینہ طور پر بانی سہیلہ کے قریب بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کو قید کیا گیا تھا۔ وادی کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور چھوٹا بچہ شامل ہیں۔

مقامی صحافتی گروپس نے بتایا کہ ان کا قتل غزہ جنگ بندی کے بعد میڈیا کارکنوں پر بڑھتے ہوئے نقصان میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ واضح رہے کہ محصور علاقے میں جنگ بندی کے دوران اب تک ۲۰ سے زیادہ صحافی ہلاک ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا مانیٹرزں کے مطابق، اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک غزہ میں ۱۸۰ سے زائد صحافی شہید ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں آنے والے ٹرکوں سے بنیادی ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی: حماس

فلسطینی میڈیا یونین اور غزہ حکام نے اس واقعہ کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پریس پر حملہ قرار دیتے ہوئے وادی کے قتل کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے عالمی صحافتی اداروں پر میڈیا کارکنوں کے تحفظ اور قتل عام کیلئے جواب دہی پر زور دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK