Inquilab Logo

اسرائیل کا ممکنہ جوہری معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار

Updated: November 26, 2021, 9:36 AM IST | Tel Aviv

صہیونی ریاست ایران کے خلاف جنگی کارروائی پر بضد۔ وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اعلان کیا کہ امریکہ ایران سے جوہری معاہدہ کربھی لے تو اسرائیل اس کا پابند نہیں ہوگا ۔ جو ہری معاہدے کو اسرائیل کے لئے ’نیند کی گولی‘ قرار دیا جو کہ ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔

Naphtali Bennett, who has been pushing for war rather than diplomacy against Biden (Photo: Agency)
نفتالی بینیٹ جو بائیڈن کے برخلاف سفارتکاری کے بجائے جنگی کارروائی پر زور دیتے آئے ہیں ( تصویر: ایجنسی)

ایک طرف جہاں امریکی صدر جو بائیڈن ایران کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کیلئے کوشاں ہیں اور مذاکرات کی ناکامی کے باوجود سفارتی کوششیں جاری رکھنے کی بات کہہ رہے ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نہ صرف اس معاہدے کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ   معاہدہ ہوجانے کی صورت میں بھی ایران کے خلاف جنگی کارروائی پر اصرار کر رہا ہے۔ 
 اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایک روز قبل  زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف کارروائی کرنے کی اپنی آزادی کو برقرار رکھے گا چاہے امریکہ ۲۰۱۵ء کے ایران معاہدے پر واپس آجائے۔ریخ مین یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اینڈ اسٹریٹیجی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بینیٹ نے کہا کہ’’ ایران کے ساتھ اسرائیل کا تصادم واقعی پوری دنیا کی ایک انتہا پسند حکومت کے خلاف جنگ ہے جو ایک جوہری چھتری کے نیچے اپنے تسلط کی تلاش میں ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں امید ہے کہ دنیا اسے نظر انداز نہیں کرے گی لیکن اگر انہوں نےایسا کیا تو ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘‘
   یاد رہے کہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن میں واپسی کے حوالے سے اگلے ہفتے ویانا میں بالواسطہ مذاکرات  دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔ اس کے نتیجے میں واشنگٹن  ایران پر عائد معاشی پابندیاں اٹھائے گا جبکہ تہران کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔  لیکن اسرائیل اس مذاکرات اور معاہدے کی مسلسل مخالفت کر رہا ہے اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی پر زور دے رہا ہے۔ 
  اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے نفتالی بینیٹ نے اعلان کیا کہ’’یہاں تک کہ اگر `ایران کے ساتھ معاہدے کی واپسی ہوتی ہے تو اسرائیل اس کا فریق نہیں ہے اس لئے  وہ اس کا پابند نہیں ہے۔‘‘بینیٹ نے کہا کہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن نے ۲۰۱۵ء کے بعد اسرائیلی دفاعی اسٹیبلشمنٹ  کیلئے ’’نیند کی گولی ‘‘ کے طور پر کام کیا کیونکہ اس نے اقدامات کرنے کیلئے اسرائیل کی رضامندی کو کم کر دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ’’ہم پچھلی بار کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے جب ہم نے معاہدے کو ہائبرنیشن میں ڈال دیا۔ ہم آزادی سے کام کرنے کی اپنی صلاحیت کو برقرار رکھیں گے۔‘‘ یاد رہے کہ مذکورہ معاہدے سے اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس میں امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتیں شامل تھیں۔ ویانے میں ہونے والے مذاکرات میں بھی انہی ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے لیکن امریکہ کا ہر اقدام اسرائیل کی ہدایت  کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے امریکی صدر  ڈونالڈ ٹرمپ   نے اسرائیل کے کہنے پر ہی اس  معاہدے کو منسوخ کیا تھا ا ور ایران پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
 بینیٹ نے اپنی تقریر میں اسرائیل کے گرد گھیرا ڈالنے والے ایران کے پراکسیوں، شام میں اس کی حمایت یافتہ ملیشیا، لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس اور اسلامی جہاد کا حوالہ دیا۔  انہوں نے کہا کہ اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت کے علاوہ ایران نے مسلسل اسرائیل کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایران نے اپنی وفادار ملیشیاؤں کو مسلح کر کے اور ہر طرف میزائل نصب کر کے اسرائیل کی ہر کھڑکی سے اندر جھانکنے کو ممکن بنا لیا ہے۔
  فی الحال نفتالی بینیٹ کے اس بیان پر ایران کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ نہ ہی مذاکرات میں شامل دیگر عالمی طاقتوں نے کوئی بیان دیا ہے۔ البتہ ایران اس  سے پہلے کئی بار اسرائیل کو متنبہ کر چکا ہے  اور بحر احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔  خود امریکہ نے  یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ اگر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ نہ ہو سکا تو اس کے پاس دیگر متبادل موجود ہیں۔ واشنگٹن نے کبھی ان ’متبادل‘ کی تفصیل بیان نہیں کی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے معنی اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف جنگی کارروائی کرنا ہی ہے۔ حالانکہ جو بائیڈن نے بارہاں اپنی تقاریر میں ایران کیساتھ مسائل کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کی بات کی ہے۔ فی الحال ۲۹؍ نومبر کو آسٹریائی  شہر ویانا میں   امریکہ اور ایران کےمابین جوہری مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے جو گزشتہ جون میں چند شرائط پر اتفاق نہ ہونے کے سبب  التوا کا شکا ر ہو گئے تھے۔ 

israel Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK