Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ وقت آگیا ہے کہ اسرائیل پر پابندیاں لگائی جائیں‘‘

Updated: May 27, 2025, 5:17 PM IST | Agency | sydney

فلسطینیوں کے خلاف صہیونی مظالم پر اسپین کا مطالبہ، جرمنی نے بھی کہا کہ ’’غزہ پر اسرائیلی حملوں کو اب حماس کیخلاف لڑائی کے نام پر جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔‘‘

European countries are also now raising their voices against the targeting of civilians in Israeli attacks. Picture: INN
اسرائیلی حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر یورپی ممالک بھی اب آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ تصویر: آئی این این

غزہ پر زائد از ڈیڑھ سال سے جاری ظالمانہ حملوں اور ۵۴؍  ہزار سے زائد فلسطینیوں کی نسل کشی کی وجہ سے تل ابیب سفارتی محاذ پر تیز ی الگ تھلگ پڑتا جا رہا ہے۔ اس کے اپنے اتحادی  اب اسے روکنے کیلئے اس  کے خلاف کارروائی کی ضرورت  پر زور دینے لگے ہیں۔  اتوار کو یورپی ملک اسپین نے ’’میڈرڈ گروپ‘‘ کی میٹنگ میں دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ اب وقت آگیاہے کہ اسرائیل پر پابندیاں  عائد  کی جائیں۔اسی طرح جرمنی نے  اب غزہ پر اسرائیلی  حملوںکو بلا جواز قرار دیتےہوئے کہا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ کے نام پر انہیں جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اُدھر آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے بھی  مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ  غزہ کی امداد روکنے کیلئے اسرائیل کے ’’بہانے اور وضاحتیں‘‘، ’’ناقابل عمل‘‘ اور ’’ناقابل اعتبار‘‘ ہیں۔ 
 اسپین نے پابندیوں کا مطالبہ کیا
 اسپین نے اتوار کو یورپی اور عرب ممالک کے  ’’میڈرڈ‘‘  اجلاس میںکہا ہے کہ اسرائیل کو  غزہ میں  فلسطینیوں  کے قتل عام سے روکنے کیلئے  اس پر پابندیاں عائد کرنے کے امکانات پر غور کرنا چاہئے۔  ’’ میڈرڈ گروپ‘‘ کی یہ پانچویں  میٹنگ تھی۔  یہ  اجلاس اقوام متحدہ میں۱۷؍ جو ن کو ہونے والی اعلیٰ سطحی کانفرنس کی تیاری کیلئے منعقد کیا گیا، جس میں فرانس اور سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے ۲؍ ریاستی حل پر تبادلہ خیال کریں گے۔گزشتہ سال میڈرڈ  میں ہونے والے اسی طرح کے اجلاس میں مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور ترکی سمیت  ناروے اور آئرلینڈ جیسے ان  یورپی ممالک نے شرکت کی تھی، جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔
 اسرائیل اتحادیوں سے ہاتھ دھو رہاہے
 یورپی یونین کے وہ ممالک جنہیں اسرائیل طویل عرصے سے قریبی اتحادی سمجھتا آیا ہے، اب وہ بھی سفارتی محاذ میں کھل کر اس کے خلاف  آگئے ہیں  اور غزہ  جنگ  روکنے کیلئے  عالمی دباؤ  کا حصہ  بن گئے ہیں۔ خاص طور پر جب سے اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی، ادویات اور غذائی اجناس کی فراہمی تک پر روک لگادی اور  فوجی کارروائیوں  میں مزید شدت پیدا کی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم  نیتن یاہو کی جانب سے گزشتہ ہفتے امداد کی محدود بحالی کی  اجازت دینے کا  اعلان کیاگیا مگر غزہ میں بمشکل ہی کوئی امداد پہنچی ہے۔ 
غزہ جنگ ختم کرنے پر زور
 اسپین کے دارالحکومت میں ۲۰؍ ممالک   اور بین الاقوامی تنظیموں  کے اجلاس میں اسپین کے وزیر خارجہ خوسے مینوئیل  الباریس  غزہ جنگ کے حوالے سے سختی  کے ساتھ کہا کہ ’’اس جنگ کو جس کا اب کوئی مقصد نہیں رہ گیا روکنا ہوگا۔‘‘  ایسے وقت میں جبکہ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا اعلان کیا ہے، اسپین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ہمیں  (اسرائیل پر ) پابندیوں کے امکان کا جائزہ بھی ضرور لینا چاہئے، اس جنگ کو روکنے کیلئے ہمیں ہرقدم اٹھانا اور ہر امکان کا جائزہ لینا چاہئے ۔  میٹنگ میں مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نےنشاندہی کی کہ’’ جنگ ختم کرنے کیلئے اسرائیلی کی جانب سےسیاسی عزم کی کمی ہے۔‘‘ انہوں نے کہاکہ ’’یہی اصل مسئلہ ہے۔ لیکن ہم کوشش جاری رکھیں گے ۔ ‘‘
اسرائیل کی وضاحتیں ناقابل اعتبار: آسٹریلیا
 آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے   بھی تل ابیب پر سخت ترین تنقید میں کہا ہے کہ غزہ کی امداد روکنے کیلئے اسرائیل کے ’’بہانے اور وضاحتیں‘‘، ’’ناقابل عمل‘‘ اور ’’ناقابل اعتبار‘‘ ہیں۔ کینبرا میں منعقدہ نیوز کانفرنس  میں  البانیز نے کہا کہ ’’اسرائیل کے اقدامات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ یہ اشتعال انگیز ہے کہ غزہ میں ضرورت مند افراد کیلئے خوراک اور رسد کی بند ہے۔‘‘  البانیز نے کہا کہ انہوں نےاسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ کو کچھ دن پہلے روم میں ایک میٹنگ میں  آسٹریلیا کےموقف سے آگاہ کردیاتھا۔ انہوں نے اسرائیلی صدر سے کہا تھا کہ ’’اسرائیل کے بہانے اور وضاحتیں قطعی ناقابل اعتبار ہیں۔‘‘ انہوں  نے کہا کہ ’’لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ اور  امداد روکی جارہی ہے جس  سے دنیا بھر میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ ‘‘ البانیز کی تنقید اقوام متحدہ کی تازہ ترین انتباہ سے مطابقت رکھتی ہے کہ غزہ بھکمری کے دہانے پر ہے۔  جرمن چانسلرفریڈرک مرزنے اسرائیلی حملوں کو قطعی بے جواز قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ حملوں نے غزہ میں عام شہریوں پر جوتباہی مسلط کی ہے، اسے’’ دہشت گردی کے خلاف کارروائی‘‘ نام پراب اور جائز  نہیں  ٹھہرایا جاسکتا۔ جرمن نشریاتی ادارے ’ڈبلیو ڈی آر‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’عام شہریوں کو جس حد تک نقصان پہنچایا جا رہا ہے،  اسے اب حماس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے طور پر جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ کھل کر کہوں تو اسرائیلی فوج غزہ میں اس وقت   جو کچھ کر رہی ہے، میں اسے سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم  نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ انہیں خبردار کر سکیں کہ’’حد سے تجاوز نہ کریں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK