’آرے وارےبیچ‘ پر سنیچر کی شام ڈوبنے والے چاروں افراد کی تدفین پیر کو کوکن نگر قبرستان میں عمل میں آئی، ان میں جنید قاضی اور زینب قاضی رتناگیری کے رہنے والےتھے، عمیرہ اور عظمیٰ شیخ ممبرا کے رہنے والے تھے۔
EPAPER
Updated: July 22, 2025, 1:24 PM IST | Siraj Sheikh | Ratnagiri
’آرے وارےبیچ‘ پر سنیچر کی شام ڈوبنے والے چاروں افراد کی تدفین پیر کو کوکن نگر قبرستان میں عمل میں آئی، ان میں جنید قاضی اور زینب قاضی رتناگیری کے رہنے والےتھے، عمیرہ اور عظمیٰ شیخ ممبرا کے رہنے والے تھے۔
یہاں کے ’آرے وارے‘ ساحل پر غرقابی کے دل سوز حادثے میں ہلاک ہونے ۳؍ بہنوں اور بہنوئی کے جنازے جب پیر کو اوسوال نگر سے ایک ساتھ اٹھے تو پورے علاقے میں سوگواری کا ماحول رہا۔ آہ وفعاں سے غمگین ماحول میں ہر آنکھ نم ہوگئی۔ نماز جنازہ کے بعد سیکڑوں افراد کی موجودگی میں ان چاروں کی لاشوں کو کوکن نگر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔مرحوم جنید کا ایک ۲؍ سالہ بیٹا بھی ہے جب یہ لوگ تفریح کیلئے گئے تھے اس وقت اس کی والدہ اپنی بیٹی کےگھر لے گئی تھیں اس لئے وہ حادثہ سے بچ گیا۔
خیال رہے کہ رتناگیری گنپتی پلے روڈ پر واقع آرے وارے ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اس لئے یہاں روزانہ سینکڑوں سیاح آتے ہیں۔یہاں کے اوسوال نگر میں رہنے والے جنید بشیر قاضی(۲۶) ان کی اہلیہ زینب (۲۶) اور ۲؍ سالیاں عمیرہ شمس الدین شیخ (۲۹) اور عظمیٰ شمس الدین شیخ (۱۸) سنیچر کو آرے وارے بیچ پر تفریح کی غرض سے گئے تھے اور اس دوران سمندر میں طاقتور لہروں کی زد میں آنے سے غرقاب ہو گئے۔ یہ حادثہ سنیچر کی شام تقریباً ساڑھے چھ بجے پیش آیا تھا۔
مرحوم جنید قاضی کا آبائی گاؤں قصبہ (تعلقہ سنگمیشور) ہے تاہم وہ اپنی بیوی زینب، ۲؍ سالہ بیٹے اور بوڑھی ماں کے ساتھ کاروبار کے سلسلے میں اوسوال نگر میں رہتے تھے۔ جنید کی ایک بہن ہے جو اوسوال نگر میں ہی رہتی ہیں اور جب بیٹا اور بہو سیر کو گئے تھے تو دادی اپنے پوتے کو اپنی بیٹی کے گھر لے گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ بچ گیا۔ ان پر اب پوتے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی آگئی ہے۔
عمیرہ، عظمیٰ اور زینب کی دیگر ۲؍ بہنیں اور ایک بھائی بھی ہے۔ ایک بہن ممبئی میں ہے، دوسری بہن دبئی میں ہے اور بھائی قطر میں ہے۔ حادثے کے بعد ممبئی سے بہن اتوار کو رتناگیری پہنچ گئی تھی۔
یاد رہے کہ زینب کی دونوں بہنیں عمیرہ اور عظمیٰ ممبرا میں اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے والد شمس الدین شیخ عمرہ کیلئے گئے تھے اور دونوں بیٹیوں کو اپنے داماد اور بیٹی کی نگرانی میں چھوڑکر گئے تھے۔ شمس الدین ۲۳؍ جولائی کو وطن واپس آنے والے تھے۔ والدین کی واپسی کے پیش نظر عمیرہ اور عظمیٰ کی ممبئی واپسی کی ٹکٹ بُک کردی گئی تھیں تاہم سنیچر کو یہ سب تفریح کیلئے گئےاور حادثے کا شکارہوگئے۔ اس حادثہ کے سبب رشتہ داروں نے شمس الدین کو ایک بیٹی کے شدید بیمارہونے کا بہانہ بنا کر واپس بلالیا۔ ممبئی آنے کے بعد انہیں اس حادثہ کی خبر دی گئی تھی۔