Inquilab Logo

جاپان: پولیس کے نسلی امتیاز کے خلاف جاپانی گروہ کا مقدمہ

Updated: January 29, 2024, 6:46 PM IST | Tokyo

جاپان میں غیر جاپانی شہریوں (جو نسلاً جاپانی نہیں ہیں) نے پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ نسل اور قومیت کی بنیاد پر وہ ان کے ساتھ امتیاز برتتی ہے۔ ان کے وکیل نے پولیس کے اس فعل کو جاپانی آئین اور عالمی معاہدے کے خلاف قرار دیا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ایک پاکستانی نژاد سمیت جاپانی شہریوں کی تنظیم نے پیر کو جانبداری اور نسلی رویےکا الزام لگاتے ہوئے جاپانی پولیس کے خلاف دیوانی عدالت میںمقدمہ دائر کیا ہے اور اس غیر قانونی برتائو کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔اس مقدمہ کی شنوائی ٹوکیو کی ضلعی عدالت میں ہوگی جبکہ حالیہ برسوں میں بیرون ملک سے آنے والے ملازموں کے تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال جاپان میں غیر جاپانی باشندوں کی تعداد تقریباً ۳۰؍لاکھ تھی جو اپنی اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔ 
تین مدعیان میں سے ایک ۲۶؍ سالہ پاکستانی نژاد جاپانی شہری سید زین کا کہنا ہے کہ اسے کئی مرتبہ پولیس کے ذریعے روکا گیا حتیٰ کہ اس کے گھر کے سامنے اس کی تلاشی لی گئی۔وہ جاپان میں گزشتہ دو دہائیوںسے مقیم ہے،جاپانی اسکول میں داخلہ لیا اور جاپانی زبان روانی سے بول سکتا ہے۔
زین نے کہا کہ ’’وہ ہماری جاپانی شہری کے طور پر شناخت نہیں کرتے۔ پہلے ہی پل وہ ہمیں ایک مجرم کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘ مدعیوں نے ’’غیر آئینی اور غیر قانونی‘‘سلوک کے عوض ہرجانے کے طور پر ۳۰؍ لاکھ ین (۲۰؍ ہزار ڈالر)اور عدالتی فیس کے طور پر ۳؍ لاکھ ین (۲؍ ہزار ڈالر) کی مانگ کی ہے۔
ان کا اہم دعویٰ ہے کہ نسلی برتائو رنگ ، نسل اور قومیت کے نام پر بھید بھائو کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس شکایت میں حکومت کے ساتھ ٹوکیو اور اس کے زیر انتظام علاقوں کی پولیس محکمہ کو نشانہ بنایا گیا ہےجبکہ حکام کی جانب سے ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
مدعیان کے مطابق بغیر کسی وجہ کے پولیس کے ذریعے روکا جانا جاپانی آئین کے خلاف ہے جو قانون کے مقابل سب کو مساوات عطا کرتا ہے اور نسل کی بنیاد پر تفریق کی ممانعت کرتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جاپان نے جو عالمی معاہدے پر دستخط کئے ہیں، یہ اس کے بھی خلاف ہے۔
تینوں شکایت کنندگان کی نمائندگی کرنے والے وکیل موٹو کی تانیگوچی کا کہنا ہے کہ ’’پولیس کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کے خدشے کے سبب جاپانی یا غیر جاپانیوں کا حکام کے خلاف مقدمہ دائر کرنا ایک مشکل امر ہے۔‘‘
بزنس کیئو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈائسوکے ایچیڈا کا کہنا ہے کہ ’’اس معاملے کی شنوائی ایک سال تک چلنے کی امید کی جا رہی ہے۔ جاپان میںتنوع کو بڑھانے کی کوشش حال ہی میں کافی بڑھ گئی ہے جبکہ کئی کمپنیاں خاتون نگراںکار مقرر کر رہی ہیں اور عالمی کمپنیوں میں غیر جاپانی نمائندہ مقر ر کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘‘بقول ان کے’’ جو ابھی شروع ہوا ہے، وہ ابتدائی قدم ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK