• Mon, 15 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کلیان: آوارہ کتوں کی دہشت، ایک ہی دن میں ۶۷ ؍افراد کو نشانہ بنایا

Updated: September 15, 2025, 4:56 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Kalyan

کے ڈی ایم سی حدود میں آوارہ کتوں کا سنگین مسئلہ،انتظامیہ لاپروا،خواتین اور بچوں میں خوف و دہشت کا ماحول۔

A CCTV image shows a dog biting a person. Photo: INN
سی سی ٹی وی سےلی گئی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کتا ایک شخص کوکاٹ رہا ہے۔ تصویر: آئی این این

کلیان ڈومبیولی میونسپل کارپوریشن(کے ڈی ایم سی) کی حدود میں آوارہ کتوں کا مسئلہ کتنا سنگین ہوتا جارہا ہے اس کی ایک تازہ مثال سنیچر کے روز سامنے آئی۔محکمہ صحت کی ہیلتھ افسر ڈاکٹر دیپا شکلا  نےاعتراف کیا کہ ایک دن میں ۶۷؍ افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹا ہے۔ شہریوں کی شکایت کے باوجود میونسپل انتظامیہ  آوارہ کتوں کو پکڑنے، نس بندی اور علاج کا کوئی خاص انتظام نہیں کررہا ہے۔
  گزشتہ روز مختلف علاقوں میں کتوں کے کاٹنے کے الگ الگ واقعات سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوگئے ہیں۔کے ڈی ایم سی کے کئی علاقوں میں آوارہ کتوں کی جانب سے راہگیروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں آوارہ کتوں کی کثرت کے سبب خواتین اور بچوں میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔
  واضح رہے کہ سنیچر کے روز آوارہ کتوں نے کلیان کے ولی پیر روڈ،گھاس بازار، نیشنل اردو پرائمری اسکول، بومبل بازار،اندرا نگر، والدھونی اور ڈومبیولی اور ٹٹوالا کے مختلف علاقوں میں ایک ہی دن میں ۶۷ ؍افراد کو نشانہ بنایا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی میں ٹٹوالا کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں آوارہ کتے کے بھنبھوڑنے سے ایک معمر خاتون کی موت واقع ہوگئی تھی۔
  اس بارے میں سماجی کارکن حمید شیخ نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ میونسپل انتظامیہ آوارہ کتوں کی بہتات کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔کے ڈی ایم سی میں آوارہ کتوں کو پکڑنے کیلئے ایک علاحدہ محکمہ بنایا گیا ہے لیکن اس محکمہ کی کارکردگی ناقص ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ میونسپل انتظامیہ کتوں کو شیلٹر ہوم منتقل کرکے نس بندی کا انتظام کریں۔گنیش شندے نے کہا کہ محکمہ صحت پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔یہ محکمہ ملازمین کی اندرونی سیاست کی لپیٹ میں ہے۔اس کی وجہ سے متعلقہ حکام کے پاس سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال اور آوارہ کتوں کی نس بندی جیسے اہم مسائل پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK