Inquilab Logo

کرناٹک سَر،اب دیگر ریاستوں پر توجہ، بدھ کو میٹنگ

Updated: May 22, 2023, 10:33 AM IST | New Delhi

کانگریس مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں میں بھی بی جےپی سے لوہا لینے کو تیار، تلنگانہ میں  بی آر ایس سے مقابلہ، چاروں ریاستوں کے  لیڈر ۲۴؍ مئی کو دہلی طلب

Mallikarjan Kharge will meet the leaders of the four states separately. (Photo: PTI)
ملکارجن کھرگے چاروں ریاستوں کے لیڈروں سے الگ الگ ملیں گے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کرناٹک میں شاندار کامیابی حاصل کرنے اور بی جےپی کو پٹخنی دینے کے بعدکانگریس نے فتح کے  خمار سے نکلتے ہوئے اسی سال ہونے والے دیگر اسمبلی انتخابات کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرلی ہے۔  پارٹی جہاں مدھیہ  پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں  بی جےپی سے دودوہاتھ کرنے کو تیار ہے وہیں تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کو بھی پوری طاقت سے لڑنے کی تیاری کررہی ہے۔اس کیلئے  چاروں ریاستوں  میں  سرگرم  پارٹی  کے سینئر لیڈروں کی میٹنگ ۲۴؍ مئی کو طلب کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ چند مہینوں میں ان چاروں  ریاستوں  اور میزورم  میں  اسمبلی الیکشن ہونے ہیں۔ کانگریس  ان ریاستوں   میں انتخابی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے۔ 
 کہیں اقتدار بچانےکا تو کہیں حاصل کرنے کا چیلنج
  جن ۴؍ ریاستوں کیلئے بدھ ۲۴؍ مئی کو میٹنگ طلب کی گئی ہے ان میں سے دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں  کانگریس  پہلے ہی برسراقتدار ہے اوراس کے سامنے حکومت مخالف لہر کا سامنا کرتے ہوئے اپنے اقتدار کر بچانے کا چیلنج ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں سابقہ الیکشن میں فتح حاصل کرنے کے بعد بھی زعفرانی پارٹی  نے  جیوترادتیہ سندھیا کی بغاوت کے سہارے اس سے اقتدار چھین لیا۔ کانگریس کو یقین ہے کہ وہ یہاں اگلے اسمبلی الیکشن میں  بی جےپی کو چاروں شانے چت  کرنے میں کامیاب ہوجائےگی۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں عوامی فلاح و بہبود کو مقدم رکھتے ہوئے کی گئی حکمرانی اور  بنائی گئی پالیسیوں کے  سہارے کانگریس  یہاں اقتدار بچانے میں  کامیابی ملنے کی امید ہے۔ 
کھرگے کے ساتھ الگ الگ میٹنگیں 
  چوتھی ریاست تلنگانہ ہے جہاں  بھارتیہ راشٹریہ سمیتی برسر اقتدار ہے۔ یہاں حالانکہ بی جےپی  ہاتھ پیر مارنے اور اپنے اثر کو بڑھانے کی کوشش کررہی ہے مگر اصل مقابلہ کانگریس  اور کے سی آر کی پارٹی میں ہی ہوگا۔ ملکارجن کھرگے  ۲۴؍ مئی کو چاروں  ریاستوں کے لیڈروں سے الگ الگ ملاقاتیں  اور  انتخابی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کریں گے۔  ایک سینئر لیڈر نے بتایا کہ کانگریس  وقت سے پہلے حکمت عملی تیار کرلینے کے بعد زمینی سطح پر ایک ایک ووٹر تک پہنچنا چاہتی ہے۔ پارٹی کو امید ہے کہ کرناٹک   کے بعد پیدا ہونے والی مثبت لہر اس کیلئے فائدہ مند ہوگی۔ 
 بھارت جوڑو یاترا سے فائدہ کی امید
   ان معاملات میں شامل کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’’بھارت جوڑو یاترا جو تلنگانہ، مدھیہ پردی اور راجستھان جیسی ریاستوں سے گزری ہے، پارٹی کو الیکشن میں فائدہ پہنچائے گی کیوں کہ اس کی وجہ سے  پارٹی کارکنوں اور کیڈر کے  نہ صرف  حوصلے بلند ہیں بلکہ وہ پہلے ہی سرگرم ہوچکے ہیں۔اس کیلئے کرناٹک کی طرح ان ریاستوں میں بھی بھارت جوڑو یاترا کا فائدہ حاصل ہوگا۔‘‘  انہوں نے بتایا کہ جو حکمت عملی کرناٹک میں  اختیار کی گئی تھی،اسی کو دیگر ریاستوں میں بھی اپنا یا جائےگا اور  عوام  کوچھتیس گڑھ اور راجستھان  میں شروع کی گئی عوام دوست اسکیموں سے آگاہ کیا جائےگا ۔
 راجستھان میں اندرونی خلفشار سے نمٹنے کا چیلنج
 کانگریس پارٹی مختلف ریاستوں میں مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ راجستھان میں بطور خاص پارٹی کو وزیراعلیٰ گہلوت اور سابق نائب وزیراعلیٰ سچن پائلٹ کے اختلافات کی وجہ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہاں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت ابھی سے انتخابی کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہاں سچن پائلٹ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات مئی کے اواخر تک پورے نہ ہوئے تو وہ تحریک شروع  کریں گے۔ سچن پائلٹ کے مختلف مطالبات میں سابق وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے خلاف اعلیٰ  سطحی جانچ کا مطالبہ شامل ہے۔ 
 چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کانگریس میں بھی خلفشار کا مسئلہ
  کانگریس ذرائع کے مطابق  پارٹی صدر ملکارجن کھرگے کو  چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بھی پارٹی کے خلفشار پر قابو پانا ہوگا۔ چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل اور ریاستی وزیر ٹی  ایس سنگھ دیو کے درمیان رسہ کشی ہے۔ٹی ایس سنگھ دیو بار بار وزارت اعلیٰ پر اپنا دعویٰ پیش کرچکے ہیں۔ اُدھر تلنگانہ میں پارٹی کی ریاستی اکائی کے صدر ریونتھ ریڈی کو لیڈروں کی آپسی لڑائی کا سامنا ہے جو انہیں ریاست سے باہر کا آدمی تصور کرتے ہیں۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر  نے بتایا کہ انتخاب میں فتح حاصل کرنے کیلئے   پارٹی کی ریاستی اکائیوں میں ویسے ہی اتحاد کو قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی جیسا اتحاد کرناٹک میں رہا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK