Inquilab Logo

کشمیر:پیپر ماشی کاریگرکرسمس کے آرڈرز تیار کرنے میں مصروف ملک و بیرون ملک تک مصنوعات فروخت ہوتی ہیں

Updated: December 23, 2022, 1:48 PM IST | Srinagar

پیپر ماشی کا شمار نہ صرف کشمیر کی قدیم ترین بلکہ مشہور ترین دستکاریوں میں ہوتا ہے اور یہ دستکاری بھی نہ صرف ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک موثر وسیلہ ہے بلکہ وادی کشمیر کے شاندار تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ بھی ہے

An old photo of a paper mache product shop. (PTI)
پیپرماشی مصنوعات کی ایک دکان کی پرانی تصویر۔(پی ٹی آئی )

وادی کشمیر کے پیپر ماشی کاریگر عیسائیوں کے   مذہبی تہوار کرسمس سے قبل اپنے کارخانوں میں مختلف ڈیزائنوں کی مصنوعات کو حتمی شکل دینے میں انتہائی مصروف نظر آ رہے ہیں۔ ان کاریگروں کی مصروفیات کی خاص وجہ یہ ہے کہ انہیں حسب معمول ملک و بیرون ملک سے ملنے والے آرڈرز مذکورہ تہوار سے قبل ہی مکمل کرکے بیوپاریوں اور خریداروں تک پہنچانے ہیں۔
 پیپر ماشی(paper mache) کا شمار نہ صرف وادی کشمیر کی قدیم ترین بلکہ مشہور ترین دستکاریوں میں ہوتا ہے اور یہ دستکاری بھی نہ صرف ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک موثر وسیلہ ہے بلکہ وادی کشمیر کے شاندار تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ تاہم اس سے جڑے کاریگروں کا شکوہ ہے کہ جموں وکشمیر کی کوئی بھی حکومت اس صنعت کے فروغ اور استحکام کے لئے فکر مند نہیں رہی ہے۔
 سری نگر کے لال بازار سے تعلق رکھنے والے محمد مقبول جان نامی ایک کاریگر نے ایجنسی  کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ یوں تو سال بھر ہمیں آرڈرز ملتے رہتے ہیں لیکن کرسمس تہوار کے پیش نظر آرڈرز زیادہ ہی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا: ’’کورونا کی وجہ سے ہمیں بھی پریشانی ہوئی تھی بصورت دیگر کرسمس کے آرڈرز ہمیں ہر سال بہتات میں ملتے ہیں۔‘‘
 ان کا کہنا تھا: ’’ہمیں نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ممالک سے بھی آرڈرز ملتے ہیں جو تہوار سے ۶؍ ماہ، ۸؍ ماہ قبل ملتے ہیں اور پھر ہم ان کو مکمل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
 موصوف کاریگر نے کہا کہ کرسمس تہوار کے لئے وادی کے تمام کاریگروں نے تیاری کی ہوتی ہے اور ان تیاریوں کا انحصار آرڈرز پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا: ’’مختلف ممالک کے مختلف ڈیزائیوں کی مصنوعات کے آرڈرز ملتے ہیں جن کی تیاریوں میں کاریگر آج کل زیادہ ہی مصروف ہیں۔‘‘
 محمد مقبول کا کہنا ہے کہ ہمارے کارخانوں میں سال بھر کام رہتا ہے  ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف کرسمس کے لئے مصنوعات تیار کر تے ہیں۔انہوں نے کہا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشے میں روزی روٹی کمانے کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن اس کو وسعت دینے اور نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا: ’’وادی کشمیر کی شان اس کی دستکاریاں ہیں ان ہی پر یہاں کے لوگوں کی روزی روٹی منحصر رہی ہے لیکن اس کو کہیں درج ہی نہیں کیا گیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ جو پیپر ماشی، ووڈ کاروونگ کے ماہرین تھے ان کو نظر انداز کیا گیا۔ ایک کاریگر نے کہا کہ فائن آرٹ کی ڈگری حاصل کی جاتی ہے لیکن اس اہم اور روایتی آرٹ کی کوئی ڈگری ہے نہ کہیں اس کو نئی پود تک پہنچانے کیلئے  سرکاری سطح پر کوئی بندوبست ہے۔انہوں نے کہا: ’’ پیپر ماشی ہو یا ووڈ کاروونگ یا کوئی دوسرا آرٹ اس کو بھی تعلیمی اداروں میں  باقاعدہ پڑھایا جانا چاہئے تھا جو ہمارے بزرگ ماہر کاریگر تھے ان سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا۔‘‘ان کا کہنا تھا: ’ایک کاریگر کو صرف ایک لاکھ روپیہ بینک قرضہ فراہم کرنا دستکاری کو زندہ رکھنے کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اسکے دوام کیلئے جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK