کہا کہ اگر کوئی ڈیل دباؤ کے ساتھ ہو اور اس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو تو وہ ڈیل نہیں بلکہ زبردستی اور غنڈہ گردی ہے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای۔ تصویر: آئی این این
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور واشنگٹن کے اس دعوے کو بھی مستر د کیا کہ اس نے تہران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے۔ خامنہ ای کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں، جب تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے ۵؍ دور ہو چکے ہیں۔ یہ مذاکرات جون میں۱۲؍ روزہ فضائی جنگ کے بعد ختم ہو گئے تھے جس میں اسرائیلی اور امریکی افواج نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
خامنہ ای نے ٹرمپ کی بطور مذاکرات کار شہرت کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کسی بھی ممکنہ بات چیت کو دباؤ اور زبردستی کا عمل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کہتا ہے کہ وہ ایک ڈیل میکر ہے لیکن اگر کوئی ڈیل دباؤ کے ساتھ ہو اور اس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو تو وہ ڈیل نہیں بلکہ زبردستی اور غنڈہ گردی ہے۔
گزشتہ ہفتے جب اسرائیل اور فلسطینی گروہ حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کا آغاز ہوا تو ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ اگر واشنگٹن تہران کے ساتھ امن معاہدہ کر سکے تو یہ بہت اچھا ہوگا۔
خامنہ ای نے امریکی دعوے کا بھی مذاق اڑایا کہ امریکہ نے جون کی بمباری میں ایران کے جوہری ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایران کی جوہری صنعت کو بمباری سے تباہ کر دیا۔ بہت خوب، خواب دیکھتے رہئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کے پاس جوہری تنصیبات ہیں یا نہیں، اس سے امریکہ کا کیا لینا دینا؟ یہ مداخلتیں نامناسب، غلط اور جابرانہ ہیں۔
مغربی طاقتیں ایران پر یورینیم کی افزودگی کے ذریعے خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کی کوشش کا الزام لگاتی ہیں لیکن تہران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام صرف پرامن توانائی کے مقاصد کے لئے ہے۔