تباہی اورنقصان کا جائزہ لینے کیلئے ورچوئل ریالٹی ہیڈ سیٹ کا استعمال کیا ،مہلوکین کی تعداد ۶۰؍ سے تجاوز، لا پتہ افراد کی تلاش جاری
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 12:26 AM IST | Jammu
تباہی اورنقصان کا جائزہ لینے کیلئے ورچوئل ریالٹی ہیڈ سیٹ کا استعمال کیا ،مہلوکین کی تعداد ۶۰؍ سے تجاوز، لا پتہ افراد کی تلاش جاری
جموں کشمیر کے کشتواڑ میں جمعرات کو بادل پھٹنے اور سیلاب کے نتیجے میںمہلوکین کی تعداد ۶۰؍سے متجاوز ہوچکی ہےجبکہ نقصانات کے پیمانے کا ابھی تک اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے مطابق اس تباہی میں تاحال۶۰؍افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ۷۰؍سے۸۰؍ افراد لاپتہ ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ دیہاتیوں کی بڑی تعداد اب بھی لاپتہ ہے۔ اس وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ متعدد لاشیں نکال لی گئی ہیں اور ان کی شناخت بھی کر لی گئی ہے ۔ عمر عبداللہ نے سنیچر کو کشتواڑ کے متاثرہ گاؤںچسوتی کا دورہ کیا ،صورتحال کا جائزہ لیا اور بچاؤ کارروائی کی تفصیلات بتائیں ۔ عمر عبداللہ سنیچر کی صبح چسوتی پہنچے اور حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصان کی حد کو سمجھنے کیلئے ورچوئل ریالٹی ہیڈسیٹ کا استعمال کیا۔اس دوران انہوں نے فوج سے معلومات لی ۔
متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی ا ورمعاوضہ کا اعلان
انہوں نے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور فوری امداد کے طور پر وزیر اعلیٰ ریلیف فنڈ سے ایکس گریشیا ریلیف کا اعلان کیا۔ ریلیف میں اس واقعے میں فوت ہونے والوں کے اہل خانہ کو۲؍ لاکھ روپے جبکہ شدید زخمی ہونے والے کو ایک لاکھ روپے اور معمولی زخمی ہونے والوں کو۵۰؍ ہزار روپیے دئے جائیں گے۔
علاوہ ازیں مکمل تباہ ہونے والے ڈھانچوں کے لئے ایک لاکھ روپے جبکہ جن تعمیراتی ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ان کیلئے ۵۰؍ ہزار روپے اور جن تعمیراتی ڈھانچوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے ان کو۲۵؍ ہزار روپے دئے جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ نے علاقے میں متاثرہ انفراسٹرکچر کی فوری بحالی کیلئے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔واضح رہےکہ متاثرہ گاؤں میں پولیس، فوج، نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف)، اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (ایس ڈی آر ایف)، بارڈر روڈس آرگنائزیشن (بی آر او) اور مقامی سول انتظامیہ ریسکیوکارروائیوں میںمصروف ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں کیلئے ابتدائی طور پر ضلع مجسٹریٹ کے پاس دستیاب ۳۶؍ لاکھ روپے تقسیم کئے گئے ہیں اور وزیر اعلیٰ ریلیف فنڈ سے مزید رقم فوری طور پر جاری کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
دوسری جانب مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ مرکزی حکومت بچاؤ آپریشن میں ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، `حکومت نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا۔ وزیر اعظم مودی نے خود اس کا نوٹس لیا اور اس کی نگرانی کررہے ہیں۔ اس کے بعد راتوں رات گاڑیوں کے ذریعے یہاں سامان لایا گیا ہے۔
لا پتہ افراد کے متعلقین کا غصہ فطر ی ہے: عمر عبداللہ
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بادل پھٹنے کے بعد لاپتہ رشتہ داروں کے بارے میں جو اب طلب کرنے والے متاثرین کا غصہ بالکل فطری اور جائز ہے، تاہم اس وقت حکومت اور ریسکیو ٹیموں کی ساری توجہ ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے پر مرکوز ہے۔ واضح رہےکہ چسوتی گاؤں میں۱۴؍ اگست کو بادل پھٹنے سے اچانک آنے والے تباہ کن سیلاب نے زبردست تباہی مچائی تھی۔ مقامی لوگوں نے اس موقع پر ریسکیو کارروائیوں میں تاخیر پر سخت ناراضگی ظاہر کی اور اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی فوری تلاش کا مطالبہ کیا۔
عمر عبداللہ نے میڈیا کو بتایا’’میں ان کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں۔ لوگ دو دن سے اپنے لا پتہ متعلقین کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا وہ زندہ بچ نکلیں گے یا نہیں۔ اگر زندہ نہیں تو کم از کم ان کی لاشیں اہل خانہ کے سپرد کی جائیں تاکہ وہ آخری رسومات ادا کر سکیں۔‘‘
’’۵۰۰؍ سے زائد لا پتہ نہیںہیں‘‘
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اب تک سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد۶۰؍ کے قریب بتائی گئی ہے جبکہ ۷۰؍ سے۸۰؍افراد لاپتہ ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تعداد ۵۰۰؍سے ایک ہزار تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے جیسا کہ بعض اندازے لگائے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف، فوج، جموں کشمیر پولیس اور سی آئی ایس ایف مشترکہ طور پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔ فی الحال یہ ریلیف آپریشن نہیں بلکہ ریسکیو مہم ہے۔ پہلے ہم جتنے زندہ لوگوں کو نکال سکتے ہیں نکالیں گے، اس کے بعد لاشیں برآمد کر کے اہل خانہ کے حوالے کرنے کی کوشش ہوگی۔
متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ماہرین کی ٹیم فیصلہ کرے گی۔ اس تعلق سےانہوں نے مزید بتایا ’’اگر ہم انہیں یہاں سے ہٹا کر ایسی جگہ رکھیں جہاں مزید خطرہ ہو تو کیا یہ درست ہوگا؟ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔‘‘بتا دیں کہ ۱۴؍ اگست کو دوپہر قریب۱۲؍ بجکر۲۵؍ منٹ پر بادل پھٹنے کے نتیجے میں آنے والی طغیانی نے چسوتی میں عارضی بازار، لنگر، ایک سیکوریٹی پوسٹ،۱۶؍ رہائشی و سرکاری عمارتیں، تین مندر، ایک۳۰؍ میٹر لمبا پل اور درجنوں گاڑیاں بہا دیں۔اس سانحہ کے بعد سالانہ مچیل ماتا یاترا جو۲۵؍ جولائی کو شروع ہوئی تھی اور۵؍ستمبر تک جاری رہنی تھی، مسلسل تیسرے روز معطل رہی۔ یہ یاترا ۸ء۵؍ کلومیٹر لمبے ٹریک پر مشتمل ہے جو چسوتی سے شروع ہو کر۹۵۰۰؍فٹ کی بلندی پر واقع مندر تک جاتی ہے۔