کولکتہ کے اسٹیٹس ٹیکل انسٹی ٹیوٹ میں مسلم مخالف نفرت انگیز تحریر نظر آئی، جس میں ایک دروازے پر مسلم اور کتوں کا داخلہ ممنوع درج کیا گیا، دہلی میں کار دھماکے کے بعد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ درج کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 13, 2025, 9:05 PM IST | kolkata
کولکتہ کے اسٹیٹس ٹیکل انسٹی ٹیوٹ میں مسلم مخالف نفرت انگیز تحریر نظر آئی، جس میں ایک دروازے پر مسلم اور کتوں کا داخلہ ممنوع درج کیا گیا، دہلی میں کار دھماکے کے بعد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ درج کیا گیا ہے۔
آلٹ نیوز کی رپورٹ کے مطابق، دہلی میں لال قلعہ کے قریب دھماکے کے ایک دن بعد ہی ہندوستانی شماریاتی انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس آئی) کے کیمپس پر ’’مسلمانوں اور کتوں کو احاطے میں داخل نہیں ہونا چاہیے‘‘اور ’’کتے اور مسلمان نہیں‘‘ جیسے نفرت انگیز اور اسلام مخالف تحریر دیکھی گئی۔یہ تحریر لڑکوں کے ہاسٹل سی وی رمن ہال کے مرکزی دروازے کے دونوں اطراف تھی۔ دروازے کے ایک طرف سالوں پرانے سیاہ رنگ میں لکھے ہوئے جملے ’’کتوں کو احاطے میں داخل نہیں ہونا چاہیے‘‘میں سفید چاک سے ’’مسلمانوں اور‘‘ کا لفظ شامل کر کے اسے ’’مسلمانوں اور کتوں کو احاطے میں داخل نہیں ہونا چاہیے‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ دروازے کے دوسری جانب تازہ تحریر میں ’’نو مسلم‘‘ اور ’’مسلمانوں کی اجازت نہیں‘‘ درج تھا۔ اس کے علاوہ ہاسٹل کے مشرقی ونگ کی سیڑھیوں کی ریلنگ پر بھی ’’کوئی کتے اور مسلمان نہیں‘‘ کا پیغام لکھا ہوا تھا۔
بعد ازاں طلبہ نے انتظامیہ سے پہلے زبانی شکایت کی، جس کے بعد آئی ایس آئی کولکتہ کی ڈائریکٹر سنگھمترا بینرجی، ڈین بشوابراتا پرادھان، اور ہاسٹل وارڈن سبھاموئی مئیرا بعد میں کیمپس کے جنرل افیئرز (جی اے) کمیٹی کے اراکین کے ساتھ تحریر کا معائنہ کرنے پہنچے۔ طلبہ نے آلٹ نیوز کو بتایا کہ ڈائریکٹر نے اس عمل کی عوامی طور پر مذمت کی۔ اس کے بعد ایک تحریری شکایت درج کرائی گئی۔ ایک طالب علم کے مطابق انہوں نے ذمہ داروں کی شناخت کے لیے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کی درخواست کی، لیکن انتظامیہ نے اسے دکھانے سے انکار کر دیا، البتہ سینسٹائزیشن پروگرام منعقد کرنے کا مشورہ دیا۔۱۲؍ نومبر کو دس طلبہ کی ایک جماعت نے ڈین سے ملاقات کر کے باضابطہ رد عمل کا مطالبہ کیا۔ طلبہ کے مطابق ڈین نے انہیں یقین دلایا کہ انسٹی ٹیوٹ ایک عوامی بیان جاری کرے گا، لیکن۱۲؍ نومبر کی شام تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ طلبہ کے ایک حصے کا خیال ہے کہ انتظامیہ واقعہ کو دبانا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دہلی کے لال قلعے کے قریب ایک بم دھماکے میں کم از کم ۱۳؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دھماکے کے فوراً بعد ہی آن لائن اور آف لائن دونوں جگہوں پر مسلم مخالف بیانات کی باڑ آگئی۔ خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبک حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ،راجستھان کے ضلع باڑمیر میں پولیس نے ریلوے چیک تیز کر دیے اور مسلم مسافروں کو واضح طور پر نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیومیں اہلکاروں کو ٹوپیاں پہننے اور داڑھی رکھنے والے مسافرں کی تلاشی لیتے، ان کی سیٹیں اور سامان چیک کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر مسلمانوں سے انتقام لینے اور اندرونی صفائی جیسے پیغامات پوسٹ کئے جانے لگے، انڈیا ٹوڈے کی ’’اوپن سورس انویسٹی گیشن‘‘ میں دھماکے کی جگہ کو صرف ’’مندر کے سامنے‘‘بتایا گیا اور قریب کی مساجد کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ایکس (سابقہ ٹویٹر) جیسے پلیٹ فارم پر ہزاروں پوسٹس میں مسلمانوں کو دہشت گرد کہا گیا اور اجتماعی سزا کا مطالبہ کیا گیا۔اس کے علاوہ اترپردیش میں بھی کشمیریوں کو متعاصب نگاہوں کا سامنا ہے۔ گڑگاؤں پولیس نے رہائشی سوسائٹیوںسے جموں و کشمیر کے تمام رہائشیوں اور غیر ملکی شہریوں کی فہرست طلب کی ہے۔