جے این یو کے طلبہ نے اپنی فکری شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بائیں بازو کے نظریات کے حق میں فیصلہ سنایا
EPAPER
Updated: November 06, 2025, 11:51 PM IST | New Delhi
جے این یو کے طلبہ نے اپنی فکری شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بائیں بازو کے نظریات کے حق میں فیصلہ سنایا
جواہر لال نہرو یونیور سٹی (جے این یو) کے طلبہ یونین انتخابات میں ایک بار پھر بائیں بازو کا لال پرچم بلند رہا۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد نے اس سال بھی مرکزی پینل کے چاروں اہم عہدوں پر کامیابی حاصل کر کے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے تمام دعوؤں کو ناکام بنا دیا ۔ گزشتہ انتخابات میں ۱۰؍ سال بعد اے بی وی پی نے مرکزی پینل کی ایک نشست حاصل کی تھی جس کے باعث وہ اس بار اپنی کامیابی کے بڑے دعوے کر رہی تھی۔ تاہم ابتدائی رجحانات کے بعد آخری گنتی میں بائیں بازو اتحاد نے سبھی عہدوں پر اپنی برتری برقرار رکھی۔ ۴؍ نومبر کو منعقدہ انتخابات میں ۶۷؍ فیصد سے زائد ووٹنگ ہوئی جس سے کیمپس میں سیاسی سرگرمیوں کی گہماگہمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تادمِ تحریر ۵۵۹۰؍ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور تمام اہم عہدوں پر بائیں اتحاد کے امیدوار آگے ہیں۔ صدر کے عہدے پر ادیتی مشرا (بائیں بازو) کو ۱۸۶۱؍ووٹ ملے، جبکہ وکاس پٹیل (اے بی وی پی) کو ۱۴۴۷؍ووٹ حاصل ہوئے، ادیتی مشرا(۴۱۴) ووٹوں سے آگے ہیں۔ نائب صدر کے عہدے پر کے گوپیکا (بائیں بازو) نے۲۹۶۶؍ ووٹ حاصل کر کے واضح برتری قائم کی، جبکہ تانیا کماری (اے بی وی پی) کو ۱۷۳۰؍ ووٹ ملے۔ جنرل سکریٹری کے عہدے پر سنیل یادو (بائیں بازو) ۱۹۱۵؍ ووٹ کے ساتھ معمولی برتری پر ہیں، جبکہ راجیشور کانت دوبے (اے بی وی پی) کو ۱۸۴۱؍ووٹ ملے۔ اسی طرح جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر دانش علی (بائیں بازو) نے۱۹۹۱؍ووٹ حاصل کیے، جبکہ انوج دامارا (اے بی وی پی) کو۱۷۶۲؍ووٹ ملے، دانش۲۲۹؍ووٹوں سے آگے تھے۔ واضح رہے کہ انتخابی مہم کے دوران کئی مباحثے، احتجاجی جلسے اور پوسٹر مہم دیکھنے کو ملی۔
دونوں جانب سے بھرپور تشہیری مہم چلائی گئی، مگر بائیں بازو اتحاد زیادہ متحد اور منظم نظر آیا۔ بیشتر طلبہ نے ان انتخابات کو ’کیمپس کی نظریاتی جنگ ‘قرار دیا۔کیمپس کے ایک طالب علم کے مطابق یہ جیت کسی تنظیم کی نہیں بلکہ جمہوریت اور آزاد فکر کی جیت ہے۔قابل ذکر ہے کہ جے این یو ہمیشہ سے بائیں بازو کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔