Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’شان نہ اس کی جانے پائے،چاہے جان بھلے ہی جائے‘‘

Updated: August 15, 2025, 7:54 AM IST | Shahab Ansari and Saadat Khan | Mumbai

انقلاب نے ممبئی کی ایسی بزرگ شخصیات سے گفتگو کی جنہیں ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح یاد ہے، تب وہ ہوش سنبھال چکے تھے

Ansari Shams Al-Dhaha Muhammad Ayub
انصاری شمس الضحیٰ محمد ایوب

آج بھی کئی ایسے افراد بقید حیات ہیں جنہوں نے صبح آزادی اپنے ہوش و حواس میں دیکھی ہے۔ آزادی پانے کی حقیقت اور اس کے جوش وخروش کوقریب سے محسوس کیاہے۔ اب بھی آزادی کے تعلق سےان میں پائی جانےوالی گرم جوشی قابل تقلید ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود آزادی کے موضوع پر ہونے والی گفت و شنید کے دوران اندازہ ہوتا ہے کہ ان میںحب الوطنی کا جوش اور ولولہ ہنوز برقرار ہے۔
 مدنپورہ، محمد عمر رجب روڈ پر رہائش پزیر ۸۸؍سالہ خدیجہ عبدالرشید خان کے بقول ’’گھیلا بائی اسٹریٹ میں واقع اکبر منزل کا ملک کی آزادی سے گہرا تعلق ہے کیونکہ اس تاریخی عمارت میں ۲؍ مجاہد  آزادی سید نور علی اور عبد الحمید انصاری رہائش پزیر تھے۔ اسی گلی کے عیسیٰ سمار کی چال میں مجاہد آزادی محمد اسماعیل خان اور مستری کی چال میں   انصاری محمد بشیر پینٹر رہا کرتے تھے۔ان مجاہدین آزادی کی وجہ سے بچپن سے ہی ہمیں آزادی کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔  اس بلڈنگ میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ آزادی ملنے کے وقت عنقریب ہونے والی سرگرمیوں، جلسہ، جلوس اور تحریک آزادی کی ریلیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوجاتیں۔ گوالیا ٹینک پر واقع اگست کرانتی میدان میں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں معلومات ملتی رہیں۔ تحریک آزادی کے متوالوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور انگریز پولیس کے ذریعے انہیں گرفتار کرنے کی خبریں اکثر موصول ہوتیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’جس روز ملک آزاد ہوا پورے مدنپورہ میں جشن کاماحول تھا۔ جگہ جگہ مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں ،ہم نے بھی کئی جگہوں سے مٹھائیاں جمع کی تھیں۔ لوگ بڑے پُرجوش تھے۔ ‘‘
 چوڑی محلہ، بھیونڈی کے ۹۰؍ سالہ انور کھوت نے بتایا کہ ’’میری عمر۱۰۔۱۱؍سال  رہی ہوگی، ۱۴؍ اگست کا دن گزر گیا تھا، رات ۱۲؍ بجکر ایک منٹ پر ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا تھا۔ بھیونڈی کے معاملیدار کچہری کے میدان میں عمائدین شہر جمع تھے، یونین جیک اُتارکر ترنگا لہرانے کیلئے لوگ بے چین تھے، اچانک فضا میں شبیر احمد راہی کی آواز گونجی ’’اُتار دو اس منحوس جھنڈے کو‘‘ انہوں نے یونین جیک اُتار کر ترنگا لہرایا تھا۔ اس منظر کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس موقع پر مجاہد آزادی بھائو صاحب دھامنکر نے کہا تھا کہ ’’شان نہ اس کی جانے پائے، چاہے جان بھلے ہی جائے۔‘‘ 
 فارس روڈ پر رہائش پذیر ۱۰۱؍ سالہ محمد ایوب عبدالحمید انصاری نے بتایا کہ’’ یوم آزادی کی صبح انہوں نے اپنے ہوش و حواس میں دیکھی تھی۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور چونکہ مسلمانوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس لئے ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کے دن مسلم محلوں میں تہوار جیسا ماحول تھا اور اکثر علاقوں میں داخلے کیلئے  گیٹ بنا کر سجائے گئے تھے اور جشن آزادی منایا جارہا تھا۔ گیٹ سجانے کی روایت آئندہ چند برسوں تک رہی اور سب سے اچھے گیٹ کو حکومت انعام دیتی تھی اور ہر مرتبہ مدنپورہ ہی انعام جیتتا تھا۔   اولڈ کسٹم ہائوس کے پاس انڈیا لائبریری پر سے برٹش حکومت کا جھنڈا اترتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔‘‘
 بھیونڈی، بنگال پورہ کے ۸۸؍ سالہ انصاری شمس الضحیٰ محمد ایوب کے مطابق ’’آزادی جس روز ملی اس دن پورے بھیونڈی میں خوشی کا ماحول تھا، ہر علاقے میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس سے قبل مجاہد آزادی مرحوم ابراہیم مدعو، گلی محلوںمیں جاکر لوگوں کو گھروں سے جمع کرتے، اپنی پُر جوش تقریروں سے لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے تھے۔‘‘
  اسی علاقے کے صدیق احمد سردار (۸۸) نے بتایا کہ ’’آزادی والے دن پورے بھیونڈی میں جشن کا سماں تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو ملک کی آزادی پر مٹھائیاں پیش کرکے مبارکباد دے رہے تھے۔ مجاہد آزادی، شبیر احمد راہی، ابراہیم مدعو اور بھائو صاحب دھامنکر وغیرہ تحریک آزادی کو تقویت پہنچانے اور لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کرنے کیلئے گلی محلوں میں پُر جوش تقاریر کیا کرتے تھے۔ ہم ان مجاہدین آزادی کی تقاریر سننےکیلئے جایا کرتے تھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK