قبائلی طلباءکانقصان، ریاستی قبائلی ترقی محکمہ کے تحت جاری۴۹۹؍ سرکاری آشرم اسکول زیادہ تر یومیہ اجرت والے اساتذہ پر انحصار کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 09, 2025, 10:32 AM IST | Mumbai
قبائلی طلباءکانقصان، ریاستی قبائلی ترقی محکمہ کے تحت جاری۴۹۹؍ سرکاری آشرم اسکول زیادہ تر یومیہ اجرت والے اساتذہ پر انحصار کرتے ہیں۔
مہاراشٹر کے سرکاری آشرم اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے، جون۲۰۲۵ء سے ریاست کے سیکڑوں آشرم اسکول مناسب تدریسی عملے کے بغیر کام کر رہے ہیں، جس کے باعث ہزاروں قبائلی طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ کلون اور سرگانہ تعلقہ کے متعدد والدین نے اساتذہ اور معاون عملے کی مکمل غیر موجودگی کے خلاف اسکول بند کر دیے اور اپنے بچوں کو گھر واپس لے گئے۔
ذرائع کے مطابق ریاستی قبائلی ترقی محکمہ کے تحت آنے والے۴۹۹؍ سرکاری آشرم اسکول زیادہ تر یومیہ اجرت والے اساتذہ پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، حکومت کی جانب سے موجودہ تعلیمی سیشن کے لیے نئی تقرریوں کے احکامات جاری نہ ہونے کے باعث ان اداروں میں تدریسی عمل مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ بتایا گیا کہ یہ یومیہ اجرت والے اساتذہ جون سے ناسک کے آدیواسی وکاس بھون کے باہر بھوک ہڑتال پر ہیں، وہ برسوں کی خدمت کے باوجود نئے ورک آرڈر نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
بحران جولائی میں اس وقت مزید بڑھ گیا جب ایم ایل اے نتن پوار نے کلون کی مرکزی عمارت میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں سینکڑوں والدین نے شرکت کی اور فوری بھرتی کیلئے تحریری یقین دہانی کا مطالبہ کیا۔ جب مقامی پراجیکٹ آفس کے حکام اس مطالبے پر عمل کرنے میں ناکام رہے تو احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا۔
دوسری جانب طلباء کے ششماہی امتحانات نصاب مکمل ہوئے بغیر شروع ہو چکے ہیں، جس سے تعلیمی معیار پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اسی بحران کے پیش نظر قبائلی ترقی محکمہ نے گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس (جی ای ایم) پورٹل کے ذریعے نجی ایجنسیوں کے توسط سے۱۷۹۱؍ کنٹریکٹ اساتذہ کی بھرتی کی منظوری دی ہے، جس پر۸۴ء۷۴؍کروڑ روپے کا خرچ متوقع ہے۔ تاہم، اس نئی پالیسی کے باوجود بہت کم اساتذہ نے اپنی ڈیوٹی جوائن کی ہے، جس سے کئی کلاسیز تاحال بغیر اساتذہ کے چل رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق۲۲۹؍ ہائر سیکنڈری، ۴۵۵؍ سیکنڈری، ۱۲۰؍گریجویٹ پرائمری، ۱۷۸؍ انگلش پرائمری، اور ۸۰۹؍ مراٹھی پرائمری تدریسی اسامیاں ۲۰۲۲ء یا اس سے پہلے سے خالی ہیں۔ اسکولوں کے۱۶؍ جون کو دوبارہ کھلنے کے بعد کلون تعلقہ کے باپکھیڑا، دیسگاؤں، کتھاریڈیگر اور سرگانہ تعلقہ کے کھنٹویہار، ڈولھارے، منی، ببلی، اور سالبھوئے جیسے علاقوں میں والدین نے کئی آشرم اسکولوں کو تالے لگا دیے۔
گورنمنٹ آشرم اسکول کلاس تیسری اور چوتھی ایمپلائز آرگنائزیشن کے نائب صدر راہل جادھو نے حکومت کی بے حسی پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ یومیہ اجرت والے اساتذہ نے قلیل تنخواہوں کے باوجود ایمانداری سے خدمات انجام دیں۔ سابق ضلع پریشد چیئرپرسن جے شری پوار نے کہا کہ حکومت صرف سرکاری آشرم اسکولوں کو نظر انداز کر رہی ہے، جس سے قبائلی بچوں کو ان کے بنیادی تعلیمی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
موجودہ بحران سے۴۹۷؍ سرکاری اور ۵۵۶؍ امداد یافتہ آشرم اسکول متاثر ہیں، جو تقریباً۲ء۵؍ لاکھ قبائلی طلباء کو تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ تعلیمی ماہرین بشمول سابق پرنسپل مہیندر گنپولے نے آؤٹ سورسنگ کے اس نئے طریقہ کار پر سوال اٹھایا ہے اور یاد دلایا کہ تدریسی بھرتیوں کے لیے پہلے سے ایک مخصوص پوِتر پورٹل موجود ہے۔ قانون ساز کونسل کے رکن جے ایم ابھیانکر نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آشرم اسکول قبائلی بچوں کے لیے نہایت اہم ہیں اور ان اداروں میں مستقل عملے کی موجودگی لازمی ہے۔ موجودہ صورتحال نے اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں، گرام پنچایتوں، خواتین کی تنظیموں اور مقامی رہنماؤں کو متحد کر دیا ہے، جنہوں نے ریاست کے قبائلی تعلیمی ڈھانچے میں پائے جانے والے سنگین مسائل کو اجاگر کیا ہے۔