ایک رپورٹ کے مطابق ریاست کے ۱۳۵؍ کارخانوں کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں بقایا ہیں جو مجموعی طور پر ۶۰۰؍ کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کارخانوں میں مزدوروں کی یونین بھی ہیں لیکن مبینہ طور پر سیاسی دبائو کے سبب یونینیں آواز اٹھانے سے قاصر ہیں
ایک شکر کارخانے میں مزدور شکر کی بوریاں رکھتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
مہاراشٹر کی صنعتوں میں شکر کارخانوں کا سب سے اہم مقام ہے۔ ان کارخانوں کو ریاست کی شناخت بھی کہا جاتا ہے لیکن یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ویسی نہیں ہے جیسی اس کے مالکان کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں ۱۳۵؍ کارخانوں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں بقایا ہیں جو مجموعی طور پر ۶۰۰؍ کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کارخانوں میں مزدوروں کی یونین بھی ہیں لیکن مبینہ طور پر سیاسی دبائو کے سبب یونین آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔
یاد رہے کہ شکر کارخانوں کی صنعت پر عام طور پر مہاراشٹر کے اہم لیڈران کا قبضہ ہے۔ یہی لیڈران مہاراشٹر کی سیاست کا رخ بھی طے کرتے ہیں۔ اطلاع کے مطابق شکر کارخانوں کے مزدوروں کا قرار کارخانہ مالک، مزدور یونین اور ریاستی حکومت ، ان تین سطحوں پر ہوتاہے۔ ایسی صورت میں براہ راست کوئی مزدوروں کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ سرکاری قوانین کے مطابق شکر کارخانوں میں کام کرنے والوں کیلئے تنخواہ کا اسکیل، ان کے بچوں کی تعلیم کا انتظام اور طبی سہولیات کا التزام ہے لیکن ان قوانین کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی سطح پر جو مزدور یونینیں کام کر رہی ہیں وہ اس تعلق سے آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے کہ ان میں بھی سیاسی تعلقات کی بنا پر شامل ہونے والوں کی بہتات ہے۔
مزدور لیڈر سبھاش گورو کا کہنا ہے کہ عام طور پر اپنی زندگیاں کارخانوں میں کھپانے والے مزدور کینسر یا دل کی بیماری کا شکار ہیں ، ان کے لئے علاج کا انتظام کرنا قانونی طور پر کارخانوں کی ذمہ داری ہے لیکن ان مزدوروں پر کارخانوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ہزاروں مزدورں کی تنخواہیں بھی بقایا ہیں۔ ریاست بھر میں تقریباً ۲۰۰؍ شکر کارخانے ہیں جن میں سے ۹۹؍ کارخانے کو آپریٹیو ہیں جبکہ ۱۰۱؍ نجی ملکیت ہیں۔ ان کارخانوں میں تقریباً سوا لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ہر سال ان کارخانوں میں ۸۰۹؍ لاکھ کوئنٹل شکر پیدا ہوتی ہے۔ اطلاع کے مطابق ان کارخانوں میں ۴۰؍ فیصد مزدور کانٹریکٹ کی بنیاد پر رکھے ہیں۔ ان کی ملازمت کو مستقل کے زمرے میں تبدیل کرنے کیلئے جو قانون ہے اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۸ء سے قبل شکر کارخانوں کے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کا قرار (کانٹریکٹ) ہر ۳؍ سال میں کیا جاتا تھا لیکن اس کے بعد سے اسے میعاد کو ۵؍ سال کر دیا گیا ہے۔ ۵؍ سال کے عرصے میں بھی تنخواہوں میں اضافے کا تناسب مسلسل کم ہوا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں مزدوروں کی تنخواہوں میں ۱۸؍ فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ ۲۰۱۹ء میں تناسب ۱۲؍ فیصد تھا۔ ۲۰۲۴ء میں اس میں اور کمی آئی ، اس بار ان کی تنخواہوں میں محض ۱۰؍ فیصد اضافہ کیا گیا۔ ان سب کے باجود ہزاروں مزدور ایسے ہیں جنہیں اب تک پوری تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ ریاست میں تقریباً ۱۳۵؍ کارخانے ایسے ہیں جہاں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہوں کی کچھ نہ کچھ رقم بقایا ہے اور مجموعی طور پر یہ رقم ۶۰۰؍ کروڑ ہے۔ سبھاش گورو کہتے ہیں کہ کارخانہ مزدوروں کی حالت بے حد خراب ہے۔ مزدور یونینوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ حکومت اور کارخانہ مالکان سے مطالبہ کر سکیں کہ وہ مزدوروں کے معاہدے پر عمل کریں۔ یونین کی کم ہمتی کی وجہ سے مزدور آج بے حال ہیں۔