اوشیوارہ فرنیچرمارکیٹ میں ملبہ کی صفائی کا کام شروع اپا ّ پاڑہ میںآگ لگنے سےایس ایس سی طلبہ کی کتابیں اور ہال ٹکٹ جل گئے ۲۲؍ دن بعد بھی کملانگر میںبجلی سپلائی بحال نہیں ہوئی
EPAPER
Updated: March 17, 2023, 11:00 AM IST | Kazim Shaikh | Mumbai
اوشیوارہ فرنیچرمارکیٹ میں ملبہ کی صفائی کا کام شروع اپا ّ پاڑہ میںآگ لگنے سےایس ایس سی طلبہ کی کتابیں اور ہال ٹکٹ جل گئے ۲۲؍ دن بعد بھی کملانگر میںبجلی سپلائی بحال نہیں ہوئی
یہاں اوشیوارہ فرنیچر مارکیٹ میں آتشزدگی سے متاثرین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سیکڑوں دکانوں ، کارخانوں اور گوداموں کے ملبے کی صفائی کا کام شروع کردیاگیا ہے اور ۲؍ دن کے اندر جلے ہوئے ڈھانچوںکو دوبارہ تعمیر کرنے کا کام شروع کردیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں بی ایم سی کے ذریعہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی نہ صرف یقین دہانی کرائی گئی ہے بلکہ اسسٹنٹ میونسپل کمشنر نے علاقے کا جائزہ بھی لیا ہے۔واضح رہے کہ پیر کی صبح مارکیٹ میں بھیانک آگ لگی تھی۔
’ اوشیوارہ اولڈ فرنیچر مرچنٹ ویلفیئر ٹرسٹ ‘ کے چیئر مین خالد فرید خان نے نمائندہ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اوشیوارہ فرنیچر مارکیٹ کے کرلا کمپاؤنڈمیں آتشزدگی میں تقریباً ۳۰۰؍ دکانیں ، کارخانے اور گودام تباہ ہوگئے ہیں ۔ ٹرسٹ کے ذمہ داران نے جلے ہوئےڈھانچوںکو دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے کے ویسٹ وار ڈ میں ڈپٹی میونسپل کمشنر شنکر سے ملاقات کی تھی ۔ اس میٹنگ میں انہوں نے وارڈ آفیسر کو حکم دیا تھا کہ وہ جائے حادثہ کا جائزہ لیں جس کی تعمیل کرتے ہوئے بدھ کو وارڈ آفیسر نے اوشیوارہ فرنیچر مارکیٹ کا دورہ کیا ۔ان کے ساتھ علاقے کے سابق کارپوریٹر راجوپیڈ نیکر اوردیگر افراد بھی تھے ۔ وارڈ آفیسر کی ہدایت پر اسسٹنٹ پولیس کمشنر بانگر کی قیادت میں پولیس اہلکاروں نے تباہ شدہ دکانوں ، کارخانوں اور گوداموں کا پنچنامہ کرکے رپورٹ بھی پیش کردی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جمعرات کو ملبے کی صفائی کاکام میونسپل عملے کے ذریعہ شروع کردیا گیا ہے اور ایسا کہا جارہا ہے کہ صفائی میں ۲؍ دن لگ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد تباہ شدہ ڈھانچوں کو دوبارہ بنانے کا کام شروع کیا جائے گا ۔ اس وقت جائے وقوع پر راجوپیڈنیکر ، چنگیز ملتانی اورد یگرمقامی لیڈران کے علاوہ مقامی پولیس اسٹیشن کے اہلکار بھی موجود رہیں گے تاکہ کام کے دوران کسی طرح پریشانی نہ ہو۔ اس ضمن میں وارڈ آفیسر سے بھی گفتگو کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہیں ہوسکا۔
بی ایم سی نے اپا ّ پاڑہ آتشزدگی متاثرین کیلئے عارضی رہائش اور کھانے کا انتظام کیا ہے لیکن زیادہ تر متاثرین نے زمین کے اس ٹکڑے پر بیٹھنے کا انتخاب کیا جہاں چند دن پہلے تک ان کا آشیانہ تھا۔ چند نوجوان وہاں پریشان حال نظر آئے۔ ان میں سے ایک ہندی میڈیم میونسپل اسکول کا طالب علم سنی شریواستو بھی تھا ۔سنی کے والد مانونے اس تعلق سے کہا کہ ’’آتشزدگی کی وجہ سے تمام کتابوں کے ساتھ ہمارے گھرکا سارا سامان جل گیا ہے۔ ہم بے بس ہیں۔ ہمیں پہلے محکمۂ جنگلات کی طرف سے کارروائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس وقت ہم اپنا سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ آگ نے ہمیں اس کا بھی موقع نہیں دیا ۔‘‘ ایس ایس سی کےطالب علم نے اس نمائندے کو بتایا کہ اس کے اسکول کے استاد نے طلبہ کو ہال ٹکٹ کے سلسلے میں مدد کا یقین دلایا ہے۔ سنی کی بڑی بہن کم کم نے بتایا کہ’’اس جیسے بہت سے طلبہ ہیں جو ایس ایس سی میں شرکت کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ نصابی کتابوں یا امتحان کی تیاری کی جگہ نہ ہونے پرکیا کریں گے۔‘‘
ایک متاثرہ لتا انگلے نے بتایا کہ وہ پیر کی شام کو باہر کام کر رہی تھیں جب ان کی بیٹی آرتی اور بیٹا انیکیت جو بالترتیب آٹھویں اور دسویں جماعت کے طالب علم ہیں،گھر پر تھے۔ آگ کو دیکھ کر وہ مختلف سمتوں میں بھاگ گئے۔ انیکیت اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی میدان کی طرف بھاگا جبکہ آرتی جنگل کی طرف چلی گئی۔ میں کم از کم ۳؍ گھنٹے تک ان کی تلاش میں بے حد پریشان رہی ۔ انیکیت نے کہا کہ اسکول انتظامیہ نے اسے دوسروں کے ساتھ امتحان میں شرکت کیلئے کہا ہے لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ہم ہال ٹکٹ کے بغیر کیسے امتحان گاہ میں داخل ہوں گے۔ ہمارے پاس نہ تو کتابیں ہیں اور نہ ہی بجلی اور پڑھائی کیلئے جگہ ۔
سویتا پاٹل نامی مکین نے کہاکہ ’’میں شام ۵؍ بجے کے قریب اپنے گھر کے اندر تھی جب میں نے بچوں کی چیخیں سنی، `آگ، آگ ۔ میں نے سوچا کہ انہوں نے کوئی کاغذ جلا دیا ہے اور انہیں ڈانٹنے کیلئے باہر نکلی تو میں نے ایک بہت بڑی آگ دیکھی جس کے بعد گیس سلنڈر کے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں تیزی سے اندر بھاگی اور گھر سے اپنا سلنڈر نکال لیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ میں الماری سے اپنا قیمتی سامان لینے کیلئے دوبارہ اندر بھاگی لیکن پھر میں نے چند میٹر کے فاصلے پر ایک اور دھماکے کی آواز سنی۔ میں اتنی خوفزدہ تھی کہ اپنی جان بچانے کیلئے وہاں سے بھاگ گئی۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مقامی افراد نے اس طرح کے ۱۰۰؍ سے زیادہ دھماکوں کی آواز سنی اور آخری دھماکہ شام ۶؍ بجکر ۱۰؍منٹ کے قریب ہوا۔
واضح رہے کہ پیر کی شام ملاڈ مشرق کے علاقے اپاپاڑہ میں لگی بھیانک آگ میں ایک ہزار سے زائد جھوپڑے خاکستر ہوگئے ۔
یہاں جاسمین مل روڈ پر واقع کملا نگر میں۲۲؍ فروری کی علی الصباح بھیانک آتشزدگی میں ۷۰؍ دکانیں، کارخانے اور مکانات خاکستر ہوئے تھے۔ حادثہ کے ۲۲؍ دن بعد بھی علاقے میں بجلی سپلائی بحال نہ ہونے سے مقامی افراد بے حد پریشان ہیں۔ کئی مکین عارضی طور پر دوسری جگہ رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور کرایہ داروں نے مکانات خالی کردیئے ہیں ۔
ایک مقامی شخص نے الزام لگایا کہ آتشزدگی کے بعدسے علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی بھیانک حادثات ہونے والے ہیں ۔ اس لئے علاقے کے کرایے دار مکانات خالی کرکے دیگر علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں ۔کملانگر میں مقیم سبھاش اگروال نے بتایا کہ کافی کوششوں کے بعد کئی گھروں میں بجلی سپلائی بحال ہوگئی لیکن اب تک ۱۰۰؍ سے زائد گھروں میں بجلی سپلائی نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے مکین بے حد پریشان ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ زندگی گزارنے کیلئے بجلی ، پانی بنیادی چیز ہے او ر آتشزدگی کے بعد سے علاقے کے لوگ ان دونوں بنیادی سہولتوں کے لئے پریشان ہیں ۔ کملانگر میں رہنے والی سلمیٰ شیخ نے بتایا کہ دھاراوی میں ۲۲؍ فروری کی علی الصباح ساڑھے ۳؍ بجے آگ لگی تھی۔اس کے بعد سے ہمارے گھروں میں بجلی سپلائی بحال نہ ہونے سے ہم اندھیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بی ایم سی کے ذریعہ سپلائی ہونے والا پانی حاصل کرنے میں بھی ہمیں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ انہوں نےمزید کہا کہ مقامی افراد کی کوششوں سےکئی الیکٹرک کیبن دوبارہ تعمیر کرکے اس میں میٹر لگائے گئے ہیںجس سے کئی گھروں میں بجلی سپلائی بھی بحال ہوگئی ہے ۔ اس علاقے میں رہنے والے صدام شیخ نے بتایا کہ گرمی کی شدت بڑھ گئی ہے اور حادثہ کے بعد سے بجلی سپلائی نہ ہونے سے ایچ ایس سی اور ایس ایس سی کے کئی طلبہ کو امتحان کی تیاری میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ کئی طلبہ اپنے رشتہ داروں یاساتھیوں کے گھروں پر پڑھائی کررہے ہیں ۔ صدام کا کہنا ہے کہ بجلی سپلائی کیلئے ہم لوگ بیسٹ کمپنی کے متعلقہ افسران سے بھی ملاقات کرچکے ہیں ۔ حادثہ کے بعد جب تک تمام متعلقہ محکموں سے بجلی بحال کرنے کی این او سی نہیں مل جائے گی ، اس وقت تک بجلی سپلائی بحال ہونا مشکل ہے ۔
اس ضمن میں بیسٹ کے متعلقہ افسران سے بھی گفتگو کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہیں ہوسکا۔