Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملاڈ: پمپری پاڑہ اور امبیڈکر نگر کے مکین جاگ کر رات گزارنے پر مجبور

Updated: August 19, 2025, 11:53 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

تھوڑی سی آہٹ کو یہاں کے جھوپڑا باسی خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں، ان کے ذہن میں۲۰۱۹ء کا دلخراش حادثہ گردش کرنے لگتا ہے جس میں۳۳؍ قیمتی جانیں تلف ہوگئی تھیں اور ایک بچی کی لاش۴۸؍ گھنٹے کے بعد ماہم کھاڑی سے برآمد کی گئی تھی، یہاںمحکمہ جنگلات کی دیوار سے متصل جھوپڑوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ پہاڑی سے لگاتار پانی آتا رہتا ہے

There is only water in the huts and in the streets, (inset) a woman in the street.
جھوپڑوں میں اور گلی میں پانی ہی پانی ہے، (انسیٹ)گلی میں ایک خاتون ۔(تصویر:انقلاب)

مسلسل تیز ہوا کے ساتھ جاری بارش میں کرار ولیج پمپری پاڑہ اور امبیڈنگر (ملاڈ ،مشرق) کے مکین جاگ کر رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ دیگر لوگوں کے علاوہ خاص طور پر ۶؍ نوجوانوں عبدالقادر عرف شیرو، حسین شیخ، پپوخان ، شاکر شیخ، عرفان شیخ، اور عبدالرزاق پر مشتمل  ٹیم الرٹ رہتی ہے ۔ اس وقت یہ لوگ رات میں بیشتر اوقات جاگتے ہیں اور خاص طور پر محکمہ جنگلات کی دیوار کی جانب والے حصے کا معائنہ کرتے رہتے ہیں کہ کہیں پھر کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ جھوپڑوں میں اور گلی میں پانی ہی پانی ہے ۔ پہاڑ کی جانب سے بھی تیزی سے پانی گرتا رہتا ہے۔ مکین کس قدر خوفزدہ ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھوڑی سی بھی آہٹ سے مکین سہم جاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں جولائی ۲۰۱۹ء میں اسی علاقے میں پیش آنے والا وہ دلخراش سانحہ گردش کرنے لگتا ہے جب رات میں سوتے وقت تقریباً ایک بجے محکمہ جنگلات کی دیوار کا بڑا حصہ گرا تھا اور زبردست سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اس میں ۲۰۰؍ سے زائد جھوپڑے بہہ گئے تھے اور۳۳؍ قیمتی جانیں تلف ہوگئی تھیں۔ یہ حادثہ اتنا دردناک تھا کہ ایک بچی کی لاش۴۸؍ گھنٹے کے بعد ماہم کھاڑی سے برآمد کی گئی تھی۔
  نمائندہ انقلاب نے یہاں کے مکینوں کا حال کچھ یوں دیکھا کہ کوئی جھوپڑا درست کررہا ہے تو کوئی گھر میں بھرا  پانی نکال رہاہے تو کوئی پانی سے بچنے کی تدبیر اپنا رہا ہے لیکن پانی اپنی تیز رفتاری برقرار رکھتے ہوئے آبادی میں داخل ہورہا ہے ، گویا مکینوں کی تمام تدابیر ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔
سب سے زیادہ خطرہ دیوار کے پاس ہے
 محکمہ جنگلات کی دیوار سے متصل جھوپڑوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔۲۰۱۹ء   میں بھی سب سے زیادہ نقصان دیوار سے متصل جھوپڑوں اور مکینوں کو ہی پہنچا تھا۔ یہاں کے مکینوں کی بدقسمتی کہئے کہ جہاں بارش میں محکمۂ جنگلات کی جانب سے بینر آویزاں کیا جاتا ہے کہ اوپر سے پانی بہنے، مٹی کھسکنے اور دیوار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایسے میں مکینوں کو محفوظ جگہ منتقل کیا جائے ورنہ حادثہ ہونے کی صورت میں جانی نقصان کا محکمۂ جنگلات ذمہ دار نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بی ایم سی اپنا پلہ جھاڑلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ۲۰؍برس سے مکین امید ویاس کی کیفیت میں یہاں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
 ہم لوگ نگرانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں 
 مکینوں کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات  نوٹس چسپاں کردیتا ہے کہ یہاں سے ہم لوگ چلے جائیں مگر جائیں تو کہاں جائیں ، اسی لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر وقت گزارنے پر مجبور ہیں ۔ نگرانی کرنے والوں میں شامل عبدالقادر عرف شیرو نے انقلاب کو بتایا کہ میں ۱۶؍ سال  سے یہاں رہ رہا ہوں ۔ دونوں جگہ تقریباً ۲۵۰؍ جھوپڑے ہوں گے ۔ ان میں ۷۰؍ سے زائد  جھوپڑے دیوار سے متصل ہیں ،  سب سے زیادہ خطرہ انہی کو ہے‌۔ ہم لوگ برسوں سےمنتظر ہیںکہ ہمیں کہیں منتقل کردیا جائے۔ آپ ہی بتائیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کون رہنا چاہے گا۔ حادثے کے وقت ہلچل ہوئی تھی اور کافی جدوجہد کی گئی تھی جس سے تقریباً ۱۰۰؍ لوگوں کو کچھ کو ماہل اور کچھ کہ اپاپاڑہ میں منتقل کیا گیا ۔ 
تین دن سے سبھی الرٹ ہیں
 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت خصوصاً ہماری ٹیم الرٹ رہتی ہے اور ایک دوسرے سے فون پر بھی رابطہ قائم رہتا ہے کہ بارش میں رات کے وقت بیدار رہنا ہے تاکہ کسی حادثے پر بلاتاخیر لوگوں مدد کی جاسکے۔شاکر شیخ نے کہا کہ باہمی بہتر تال میل سے ایک دوسرے کی مدد اور کسی حادثے پر بر وقت پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ خاص طور پر جب سے تین دن سے تیز بارش اور زوردار ہوا چل رہی ہے، سبھی الرٹ ہوگئے ہیں۔ محمد حسین کے مطابق یہاں ہم سب ایک پریوار کی طرح ہیں‌۔ سب کے مسائل یکساں ہیں ۔ اسی لئے گزشتہ حادثے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پھر ایسا حادثہ پیش نہ آئے اور اگر کسی کو بھی ضرورت ہوتو فورا مدد پہنچائی جائے۔ہم لوگوں کو  یہاں رہتے ہوئے برسوں گزر گئے لیکن حکو‌مت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ حادثے کے وقت ہلچل ہوئی تھی ، افسران نے دورہ کیا تھا، سروے کیا گیا تھا اور کافی جدوجہد کے بعد کچھ ہی متاثرین کی منتقلی ہوئی بقیہ برسوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK