کہا :ہیمنت کرکرے کے ذریعے جمع شدہ پختہ ثبوتوں کے باوجود سیاسی دباؤ کے اثرات ملزمین کو راحت دینے میں مددگار نظر آئے لیکن قانونی لڑائی کیلئے پُر عزم
EPAPER
Updated: August 01, 2025, 7:13 AM IST | Mukhtar Adeel | Mumbai
کہا :ہیمنت کرکرے کے ذریعے جمع شدہ پختہ ثبوتوں کے باوجود سیاسی دباؤ کے اثرات ملزمین کو راحت دینے میں مددگار نظر آئے لیکن قانونی لڑائی کیلئے پُر عزم
: مالیگائوں بم دھماکہ ۲۰۰۸ء کے متاثرین عدالت سے بھگوا ملزمین کو بَری کئے جانے پر ایک بار پھر مغموم ہوئے ہیں۔اُن تمام لوگوں کو امید تھی کہ عدالت سے انہیں انصاف ملے گا ۔ ۱۷؍برسوں کا انتظار ایک مرتبہ پھر اُن سب کو مغموم کرگیا جنہوں نے اپنے عزیزوں کو ۲۰۰۸ء کے بم دھماکے میں کھو دیا۔یہ متاثرین مایوس ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کاکہنا ہے کہ یہ وقتی مایوسی ہے کیوں کہ وہ اس فیصلے کو ہر قیمت پر اعلیٰ عدالت میںچیلنج کریں گے ۔ ان کا عزم ہے کہ انصاف کے حصول کیلئے وہ سپریم کورٹ تک جائیں گے ۔ تخریب کاروں اور انسانیت دشمنوں کے خلاف سینہ سِپر رہنے کے موقف پر قائم رہنے کا اعادہ بھی وہ کررہے ہیں ۔ مالیگائوں کے مصروف بھِکّو چوک پر ہونے والے بم دھماکہ کے مہلوکین میں (۱) فرحین شیخ لیاقت (۲) شیخ مشتاق شیخ یوسف (۳) شیخ رفیق شیخ مصطفیٰ (۴) عرفان خان ضیاء اللہ خان (۵) سیّد اظہر سیّد نثار اور (۶) ہارون شاہ محمد شاہ شامل ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے فیصلے کو غیر متوقع بتایا لیکن کہا کہ کسی بھی بے گناہ کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔
میری بیٹی کا خونِ ناحق رائیگاں نہیں جائے گا
اس بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والی فرحین کی عمر ۲۰۰۸ء میں محض ۶؍ سال تھی۔ وہ بھکو چوک میں کھانے کا سامان لانے گئی تھی۔ موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹنے سے اُس کے جسم کے پرخچے اُڑ گئے تھے ۔ اُس کے والد شیخ لیاقت نے کہا کہ میری بیٹی کا خونِ ناحق رائیگاں نہیں جائے گا۔ جنہوں نے وہ جرم کیا وہ سکون کی نیند نہیں سو سکیں گے ۔ میری بیٹی اَب اِس دنیا میں نہیں ہے لیکن اُس کا خاندان انصاف کی جنگ لڑتا رہے گا ۔ عدالت کے فیصلے نے ہمیں مایوس ضرور کیا لیکن ہم نا اُمید نہیں ہیں ۔ ہمیں اعلیٰ عدالتوں پر اور سب سے زیادہ اپنے خدا پر بھروسہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گی اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا ملے گی۔
پختہ ثبوتوں سے چھیڑخانی کا شبہ !
بم دھماکے کے وقت عرفان خان کی عمر ۲۲ ؍ سال تھی ۔ شدید زخمی حالت میں پہلے اُسے فاران اسپتال لے جایا گیا ۔ وہاں سے ناسک ٹرانسفر کیا گیا لیکن وہاں سے بھی اسے جے جے اسپتال (ممبئی) بھیج دیا گیا مگر قدرت کی مرضی کےآگے کس کی چلی ہے۔ عرفان اِس جہانِ فانی سے دورانِ علاج رخصت ہوگیا ۔ یہ باتیں اُس کے چچا عثمان نے بتائیں ۔ انہوں نے کہا کہ عرفان کے والد انصاف ملنے کی آس میں پانچ سال قبل انتقال کرگئے ۔ ضعیف والدہ عینور بی کو جب معلوم ہوا کہ سب کے سب ملزمین بَری ہوگئے تو اُن کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا ۔ جیسے جوان بیٹے کے جنازے پر سترہ سال پہلے وہ آہ وفغاں کررہی تھیں وہی منظر عدالتی فیصلہ کے بعد گھر میںنظر آیا ۔ عثمان خان نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ ایماندار پولیس افسر ہیمنت کرکرے کے ذریعے جمع شدہ پختہ ثبوتوں سے چھیڑخانی کی گئی ہے ۔
’’ انصاف کیلئے لڑوں گا ‘‘
۲۸/ رمضان المبارک کو ہوئے اُس بم دھماکے میں ۱۵؍ سال کا سیّد اظہر بھی جاں بحق ہوا تھا ۔ اُس وقت وہ دسویں جماعت میں زیرتعلیم تھا اور حفظ کلام مجید کررہا تھا ۔ اظہر کے والد سیّد نثار احمد نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ ایسا لگتا ہے ملزمین کو راحت دِلانے میں تفتیش کاروں نے مدد کی اور تفتیش کاروں پر سیاسی دباؤ بنایا گیا تاکہ عدالتی فیصلے کا رُخ تبدیل ہوجائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اوّل تو حکومت مہاراشٹر اس فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے جیسے ممبئی ٹرین بلاسٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کیا ۔ دوّم : جمعیۃ علماء اس قانونی محاذ پر پیش رفت کرتی ہے تو ہم شانہ بشانہ رہیں گے ۔ واضح رہے کہ اس طرح کے تاثرات بم دھماکہ میں شہید ہارون شاہ ، شیخ مشتاق اور شیخ رفیق کے وارثین سے بھی موصول ہوئے ہیں ۔ ان سبھی نے بیک زبان دہرایا کہ انصاف کا گلا گھونٹنے کے بجائے انصاف کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔