سیکڑوں طلبہ کے والدین کے ہمراہ مقامی رکن اسمبلی کی میٹنگ۔ اساتذہ نے اپنے مسائل بیان کئے۔ بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کا الزام
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 11:33 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
سیکڑوں طلبہ کے والدین کے ہمراہ مقامی رکن اسمبلی کی میٹنگ۔ اساتذہ نے اپنے مسائل بیان کئے۔ بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کا الزام
چھٹی تا ۸؍ ویں جماعت کی نجکاری کے بی ایم سی کے فیصلے کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ اسی تعلق سے ٹاؤن شپ میونسپل اسکول کے سیکڑوں طلبہ کے والدین کے ہمراہ مقامی ایم ایل اے نے مذکورہ اسکول میں میٹنگ کی۔ اساتذہ نے اپنے مسائل بیان کئے اور طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کا الزام عائد کیا۔
نمائندۂ انقلاب کے اساتذہ سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اصل میں ٹاؤن شپ میونسپل اسکول میں پرائمری تا دسویں تک کی تعلیم مراٹھی، انگلش، ہندی اور سی بی ایس ای بورڈ کے ذریعے دی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر ڈھائی ہزار سے زائد طلبہ ایک ہی عمارت میں زیر تعلیم ہیں اور ابھی کروڑوں روپے خرچ کرکے اسکول کی نئی شاندار عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ان اسکولوں میں نصف سے زائد مسلم طلبہ ہیں۔ بی ایم سی کے ذریعے انگلش میڈیم اور سی بی ایس ای بورڈ کے تحت چھٹی تا ۸؍ویں جماعت کی نجکاری کی گئی ہے اور اس کاٹھیکہ پریہاس نام کی تنظیم کو دیا گیا ہے۔ یہ تنظیم اپنے طور پر سرِدست تین جماعتوں کا تعلیمی نظام چلائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کو یہ اندیشہ ہے کہ ان کے لئے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب والدین کو خدشہ ہے اور ان میں بے چینی پائی جارہی ہے کہ اب تک سارا نظام بی ایم سی دیکھتی تھی، نجکاری کے سبب ان پر بھی بوجھ پڑسکتا ہے۔ اس لئے وہ اس کی مخالفت کررہے ہیں۔‘‘
ان ہی خدشات کے تحت مقامی رکن اسمبلی اسلم شیخ نے والدین کے ہمراہ میٹنگ کی اور کسی صورت نجکاری نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کروائی۔ اسلم شیخ نے کہا کہ ایک طرف میونسپل کارپوریشن کروڑوں روپے خرچ کر کے اسکولوں کی شاندار عمارتیں تعمیر کرا رہی ہے تو دوسری طرف نجی اداروں کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی کا عمل چلایا جا رہا ہے۔ کہیں یہ بی ایم سی اسکولوں کی نجکاری کی سازش تو نہیں ہے؟ اسی طرح اسی ٹاؤن شپ انگلش اسکول میں نویں اور دسویں جماعت کیلئے بھی نجی ادارے کے ذریعے اساتذہ کی تقرری کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان جماعتوں کو نجی ادارے کے حوالے کس بنیاد پر کیا جارہا ہے؟‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ ’’اب اطلاع ملی ہے کہ سی بی ایس ای بورڈ کی کلاسز بھی نجی ادارے کو سونپنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ اگر واقعی نویں اور دسویں کیلئے اساتذہ نہیں تھے، تو پھر میونسپل کارپوریشن نے کروڑوں روپے کی لاگت سے عمارت بنانے کے ساتھ اساتذہ کی بھرتی کیوں نہیں کی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محکمہ تعلیم کے کچھ افسران مخصوص نجی اداروں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اساتذہ کی تقرری نہیں کر رہے ہیں؟ اس پورے معاملے کی مکمل تحقیقات کی جانی چاہئے اور ذمہ دار افسروں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔بی ایم سی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نجکاری کو کسی قیمت پر قبول نہیںکیا جائے گا۔‘‘