کانگریس جنرل سیکریٹری نے لوک سبھا میں حکومت سے تلخ سوال کئے، فوجی کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے پروزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا، پہلگام حملے پر جواب دہی کا مطالبہ بھی کیا
EPAPER
Updated: July 30, 2025, 12:51 PM IST | New Delhi
کانگریس جنرل سیکریٹری نے لوک سبھا میں حکومت سے تلخ سوال کئے، فوجی کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے پروزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا، پہلگام حملے پر جواب دہی کا مطالبہ بھی کیا
’’میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھےاس اہم موضوع پر بولنے کا موقع دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے بولنے سے پہلے ہی حکمراں جماعت کےلوگ بھاگ گئے ہیں۔ کل میں ایوان میں بیٹھی سب کی تقریریں سن رہی تھی۔ معزز وزیر دفاع نے خطاب کیا، حکومت کے کئی وزرا نے بھی گفتگو کی۔وزیر دفاع کا ایک گھنٹےکا طویل خطاب تھا۔ سنتے وقت ایک بات مجھے بہت کھٹک رہی تھی۔ بعد میں جب حکومت کے دیگر نمائندوں کی تقاریر سنیں تو بھی یہی بات بار بار میرے ذہن میں آتی رہی کہ تمام باتیں ہوئیں ،— آپریشن سیندور کی بات کرلی، دہشت گردی کی بات کرلی، ملک کی حفاظت کی بات کرلی، تاریخ کا سبق بھی پڑھا دیا گیا لیکن ایک اہم بات چھوڑ دی گئی۔ اُس دن ۲۲؍اپریل ۲۰۲۵ء کو جب۲۶؍ہم وطنوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے کھلے عام مارا گیا، تو یہ حملہ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟
آج کل تشہیر کا زمانہ ہے۔ کچھ عرصے سے حکومت تشہیر کر رہی تھی کہ کشمیر میں دہشت گردی ختم ہو چکی ہے، وہاں امن ہے۔ وزیراعظم نے کئی تقاریر کیں، عوام کو کہا کہ کشمیر جائیے، سیر کیجیے۔میڈیا پر بھی بارہا دیکھا، کہا گیا کہ’’کشمیر جائیے، زمین خریدیئے، اب وہاں سکون ہے۔ ‘‘ انہی باتوں سے متاثر ہو کر کانپور کے نوجوان شبھم دویدی اور ان کے اہل خانہ نے طے کیا کہ وہ کشمیر کی سیر کریں گے۔ شبھم کی ۶؍ماہ پہلے شادی ہوئی تھی۔ ان کی بیوی نے بتایا کہ ان کے درمیان محبت اور دوستی کا ایسا رشتہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کو بچوں کی طرح ہنساتے تھے۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی ہے جس میں پورا خاندان ساتھ بیٹھا تاش کھیل رہا ہے اور اس ہنس بول رہا ہے کہ اسے دیکھ کر کسی کا بھی دل ٹوٹ جائے — کہ اس خاندان اس طرح برباد کیوں ہونے دیا گیا؟
۲۲؍ اپریل۲۰۲۵ء کو بیسرن ویلی میں موسم کا مزاج اچھا تھا۔ روزانہ کی طرح اس دن بھی ہزاروں سیاح پہنچے تھے۔ وہاں کا راستہ آسان نہیں ہے — جنگل اور پہاڑوں کے بیچ گھوڑوں کے ذریعے جانا پڑتا ہے۔یہ خاندان بھی وہاں پہنچا۔ موسم سہانا تھا، ان کے بچے ٹرامپولین پر کھیل رہے تھے، کوئی زِپ لائن کر رہا تھا، کوئی چائے پی رہا تھا تو کوئی کشمیر کی وادیوں کی ٹھنڈی ہوا کا مزہ لے رہا تھا۔ شبھم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک اسٹال پر کھڑے تھے۔تبھی اچانک ۴؍دہشت گرد جنگل سے نکلتے ہیں اور شبھم کو وہیں، ان کی بیوی کے سامنے گولی مار دیتے ہیں۔پھر وہ ایک گھنٹے تک لوگوں کو چُن چُن کر قتل کرتے ہیں اور۲۶؍لوگوں کومارڈالتے ہیں۔
شبھم کی بیوی خوفزدہ ہوکربھاگتی ہیں، جان بچانے کیلئے جنگل کی طرف دوڑتی ہیں، وہاں پتہ چلتا ہے کہ کئی لوگ جان بچا کر جنگل کی طرف بھاگے ہیں۔ کوئی اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر پہاڑ پر گھسیٹ رہا ہے، کوئی کشمیری گھوڑے والوں یا گائیڈز کی مدد سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی راستہ نہیں تھا، کوئی بندوبست نہیں تھا مگر لوگ بھاگ رہے تھے۔ شبھم کی بیوی کے الفاظ میں’’کسی اندیکھی طاقت نے ہمیں بچا لیا۔‘‘ میں یہاں ان کے الفاظ پڑھنا چاہتی ہوں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ اس پورے وقفے میں جب ایک گھنٹے تک ہمارے ملک کے شہریوں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا تھا تو ایک بھی فوجی نظر نہیں آیا۔ کوئی سیکورٹی اہلکار موجود نہیں تھا۔‘‘ شبھم کی بیوی کہتی ہیں کہ ’’ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دنیا کو ختم ہوتے دیکھا، وہاں ایک بھی سیکوریٹی گارڈ نہیں تھا۔میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ملک نے، سرکار نے ہمیں اناتھ چھوڑ دیا تھا۔‘‘ وہاں سیکوریٹی کیوں نہیں تھی؟وہاں ایک بھی فوجی کیوں نظر نہیں آیا؟
کیا حکومت نہیں جانتی تھی کہ روزانہ ہزاروں سیاح وہاں جاتے ہیں؟ کہ وہاں جانا مشکل ہے؟ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہاں تک جنگ کے راستے سے پہنچا جاتا ہے اور اگر کچھ ہو جائے تو لوگ نکل بھی نہیں پائیں گے؟کوئی طبی بندوبست نہیں تھا۔ نہ فرسٹ ایڈ، نہ سیکورٹی۔لوگ حکومت کے بھروسے وہاں گئے تھے مگر حکومت نے انہیں بھگوان بھروسے چھوڑ دیا۔
میں پوچھنا چاہتی ہوں — یہ کس کی ذمہ داری کس کی تھی؟ اس ملک کے عوام کی سلامتی کی ذمہ داری کیا ملک کے وزیراعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر کی نہیں ہے؟ پہلگام حملے سے صرف ۲؍ہفتے قبل وزیر داخلہ سیکوریٹی کا جائزہ لینے کیلئے کشمیر گئے تھے — ۔ وہاں انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے دہشت گردی پر فتح حاصل کر لی ہے۔ ‘‘ اور(حملے کے )۳؍ماہ بعد جموں کشمیر کے گورنر ایک عام انٹرویو یوں ہی چلتےچلتے کہہ دیتے ہیںکہ ’’ہاں، بیسرن ویلی میں بہت لاپروائی ہوئی اور میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔‘‘یہ بات وہاں ہوئی اور وہیں ختم بھی ہوگئی۔ان سے ذمہ داری کے تعلق سے نہ کوئی سوال کرتا ہے، نہ جواب لیتا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری ایک دہشت گرد گروپ ’’ٹی آر ایف‘‘ نے لی —۔ یہ گروپ۲۰۱۹ء میں بنا،۲۰۲۰ء میں سرگرم ہوا اور اپریل۲۰۲۰ء سے۲۲؍اپریل ۲۰۲۵ءتک اس نے۲۵؍ دہشت گردانہ حملے کئے۔جب وزیر داخلہ نے اپنی اپنی تقریر میں یو پی اے حکومت کے وقت کے دہشت گردانہ حملے گنوائے، تو تقریباً۲۵؍گنوائے۔ اس گروپ نے کشمیر میں۲۵؍حملے ۲۰۲۰ء اور۲۰۲۵ء کے درمیان گنوائے۔ان میں۲۰۲۴ء کا ریاسی حملہ بھی تھا، جس میں ۹؍لوگ مارے گئے اور۴۱؍زخمی ہوئے۔ مجموعی طور پر۲۰۲۰ءسے۲۲؍اپریل۲۰۲۵ءتک ٹی آر ایف نے۴۱؍فوجی اورسیکوریٹی اہلکاروں کو شہید کیا۔ ۲۷؍عام شہریوں کو مارا، اور۵۴؍افراد کو زخمی کیا۔ مگر حکومت ہند نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم کب قرار دیا؟۲۰۲۰ء، ۲۰۲۱ء یا ۲۰۲۲ء میں نہیں بلکہ ۲۰۲۳ء میں اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیاگیا۔۳؍سال تک یہ گروپ دہشت گردانہ کارروائیاں کرتا رہا، اور آپ۲۰۲۳ء میں جا کر اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
پہلگام حملہ کیا ہماری ایجنسیوں کی ناکامی نہیں ہے؟ یہ بہت بڑی ناکامی ہے۔ سب جانتے تھے کہ یہ گروپ سرگرم ہے، سب جانتے تھے کہ وہ ۵؍سال سے دہشت گردانہ حملے کر رہا ہے کیا آپ ان پر نظر نہیں رکھ رہے تھے؟ ان ایجنسیوں کی ذمہ داری کون لے گا؟ کیا آئی بی چیف نے استعفیٰ دیا؟ کیا کسی نے استعفیٰ دیا؟ انٹیلی جنس بیورو وزیر داخلہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ کیا وزیر داخلہ نے استعفیٰ دیا؟ چھوڑیں استعفیٰ، کیا انہوں نے کوئی ذمہ داری قبول کی؟ کل گورو گوگوئی نے اپنی تقریر میں وزیر داخلہ سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی؟ میں دیکھ رہی تھی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ(اثبات میں) اپنا سر ہلا رہے تھے، لیکن وزیر داخلہ ہنس رہے تھے۔
راج ناتھ سنگھ پلوامہ، پُوری اور پٹھان کوٹ کے وقت وزیر داخلہ تھے۔ آج وہ وزیر دفاع ہیں اور ہمارے وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں۔ان کی ناک کے نیچے پورا منی پور جل گیا۔ دہلی میں فسادات ہوئے، پہلگام میں حملہ ہوا اور آج بھی وہ اسی عہدے پر ہیں، کیوں؟ ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے کہ اس نے آپریشن سیندور میں بہادری سے لڑائی لڑی لیکن اس کا کریڈٹ بھی ہمارے وزیر اعظم لینا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، لیجیے۔ اولمپکس میں میڈل آتا ہے، اس کا بھی کریڈٹ آپ ہی لیتے ہیں۔ لیجیے لیکن صرف کریڈٹ لینے سے قیادت نہیں ہوتی، ذمہ داری بھی لینی پڑتی ہے۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جنگ شروع ہوتے ہی رک گئی۔ اور اس رُکنے کا اعلان ہماری حکومت یا فوج نے نہیں کیاامریکہ کے صدر نے کیا۔ یہ ہمارے وزیر اعظم کی غیر ذمہ داری کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جب بھی سوال کیا جاتا ہے تو ہمارے وزیر داخلہ تاریخ میں چلے جاتے ہیں۔ نہرو نے کیا کیا، اندرا گاندھی نے کیا کیا، یہاں تک کہ میری ماں کے آنسوؤں کا ذکر بھی کرتے ہیںلیکن اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ سیزفائر کیوں ہوا؟ جنگ کیوں رکی؟ اور تب کیوں رکی جب دشمن کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا؟ کیا یہ جنگ رکوانا درست تھا؟ جب حکومت جھوٹی اور بزدل ہوتی ہے تو وہ بہادر فوج کے حوصلے کو بھی کمزور کر دیتی ہے۔ ملک کو انتقام کے ساتھ ساتھ عوام کی جان کی حفاظت کا عزم بھی چاہیے۔ فوج کی طاقت کے ساتھ حکومت کی سچائی بھی چاہیے۔شہید اندرا گاندھی جی، جنہوں نے امریکہ کے صدر نکسن کا ڈٹ کر سامنا کیا، پاکستان کا بٹوارہ کروایا، بنگلہ دیش بنایا اور ایک لاکھ پاکستانی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا، انہوں نے کبھی کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی۔