• Mon, 15 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ، ۲۰۲۵ء کی اہم دفعات پر روک لگائی، جائیدادوں کا رجسٹریشن جاری رہے گا

Updated: September 15, 2025, 2:02 PM IST | New Delhi

عدالت نے زور دیا کہ اس کے مشاہدات صرف ابتدائی ہیں اور حتمی دلائل سننے کے بعد اس معاملے کی تفصیل سے جانچ کی جائے گی۔

Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے پیر کو وقف (ترمیمی) ایکٹ، ۲۰۲۵ء پر ایک اہم عبوری حکم جاری کرتے ہوئے متنازع قانون کی بعض دفعات پر روک لگا دی ہے لیکن پورے قانون پر اسٹے لگانے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ قانون کی بعض شقوں پر آئینی تحفظات موجود ہیں، لیکن وقف جائیدادوں کا رجسٹریشن لازمی رہے گا۔

عدالت نے وقف قانون کے سیکشن ۳(ر) کی اس شرط پر روک لگا دی جس کے تحت کسی شخص کو اپنی جائیداد وقف کرنے سے پہلے پانچ سال تک ایک عملی مسلمان ہونا ضروری ہے۔ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کے مذہبی عمل کی تصدیق کیلئے کوئی اصول یا طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس کے نتیجے میں من مانے فیصلے ہو سکتے ہیں۔

عدالت نے ڈسٹرکٹ کلکٹرز کو نجی شہریوں سے متعلق تنازعات کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے والی دفعات پر بھی روک لگادی اور نوٹ کیا کہ انہیں ایسا اختیار دینے سے، اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت نے زور دیا کہ کلکٹر کے بجائے تنازعات کو وقف ٹریبونلز کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے: دہشت گردی کے الزام میں گرفتار محمد کامل کی عرضی پر جلد سماعت کی ہدایت

سپریم کورٹ نے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت کی متنازع دفعات پر اسٹے نہیں لگایا لیکن اس کی حد مقرر کردی۔ عدالت نے کہا کہ ریاستی وقف بورڈز میں ۳ اور مرکزی وقف بورڈ میں ۴ سے زیادہ غیر مسلم ممبران شامل نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح، کورٹ نے حکومت پر زور دیا کہ قانون کے سیکشن ۲۳ کے تحت وقف بورڈز میں حکومت کی جانب سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے عہدے پر مقرر کئے جانے والا افسر مسلمان ہونا چاہئے۔ 

جائیدادوں کا رجسٹریشن جاری رہے گا

تاہم، بنچ نے قانون کے تحت، وقف جائیدادوں کے رجسٹریشن کی شرط پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ ججوں نے واضح کیا کہ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۱۳ء کے درمیان وقف پر قانون سازی اور پھر نئی ترمیم کے تحت بھی رجسٹریشن ایک مستقل خصوصیت رہی ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ رجسٹریشن کی آخری تاریخوں میں لچک کی ضرورت ہو سکتی ہے، جسے اس نے اپنے حکم میں حل کیا ہے۔ اس موقع پر، عدالت نے واضح کیا کہ اس کے مشاہدات صرف ابتدائی ہیں اور جب حتمی دلائل سنے جائیں گے تو اس معاملے کی تفصیل سے جانچ کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھئے: تقسیم ہند کے ذمہ دار ہم نہیں: این سی ای آر ٹی کتابوں میں تبدیلی پراویسی برہم

فریقین کے دلائل

واضح رہے کہ بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے اپریل ۲۰۲۵ء میں پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل منظور کیا تھا۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور دلیل دی تھی کہ یہ ترامیم مسلم برادری کے مذہبی اوقاف کو سنبھالنے کے حق کو کمزور کریں گی اور ”وقف ںائے یوزر“ کو قانونی تعریف سے ہٹا کر تاریخی وقف جائیدادوں کو ختم کر دیں گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے نتیجے میں مساجد، قبرستانوں اور فلاحی مقامات سے ان کا وقف کا درجہ چھین لیا جا سکتا ہے۔

اس کے برعکس، مرکزی حکومت نے ایکٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد وقف کے دعوؤں کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلیل دی کہ یہ تبدیلیاں مذہبی استعمال کیلئے جائیداد وقف کرنے کے حق میں کمی کئے بغیر شفافیت کو یقینی بناتی ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی چھ ریاستی حکومتوں نے بھی ان ترامیم کی حمایت کی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK