Inquilab Logo Happiest Places to Work

اقوام متحدہ: حقوق انسانی کے ماہرین نے منی پور کے حالات پر تشویش ظاہر کی

Updated: September 05, 2023, 5:59 PM IST | New Delhi

گزشتہ دن اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ماہرین نے منی پور تشدد پر اپنی رپورٹ جاری کی جس میں منی پور میں پھوٹ پڑنے والے تشدد اور اسے ختم کرنے کیلئے حکومت ہند کے ناکافی اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہندوستان نے اس رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ منی پور کے حالات قابو میں ہیں

A scene of Manipur violence. Photo: INN
منی پور تشدد کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ماہرین نے منی پور تشدد اوراس کا سد باب کرنے کیلئے ناکافی انسانی ردعمل کے اظہار کیلئے پریس ریلیز جاری کی ہے ۔ اس پریس ریلیز میں ماہرین نے کہا ہے کہ وہاں (منی پور) کی صورتحال کافی تشویش ناک ہے اور نشاندہی کی کہ اس تشدد میں عصمت دری، خلاف قانون قتل، گھروں کا تباہ ہونااور لوگوں کا بے گھرہونا، ذہنی اذیت اور اخلاق سے گرے برتاؤ کے معاملات شامل ہیں۔۴؍ مئی ۲۰۲۳ء کو منی پور میں ۲؍ خواتین کے معاملے کے علاوہ دیگر معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ منی پورتشدد میں ہر عمر کی خواتین کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں خاص طورپر کوکی برادری شامل ہے۔ خواتین کے ساتھ ہونے والے معاملات میں اجتماعی عصمت دری، خواتین کو برہنہ کر کے پریڈ کروانا، متعدد کی موت، زندہ جلا دینا وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین نےاپنے بیان میں اس جانب بھی نشاندہی کی ہے کہ یہ معاملہ اس لئے بھی خطرناک ہے کہ اس میں نفرت آمیز تقاریر اور شعلہ بیانی کی گئی ہے جس کے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں۔ ان ویڈیوز میں منی پور واسیوں کو اکسایا گیا کہ وہ مذہنی اعتقاد اور نسلی بنیاد پر کوکی برادری، خاص طور پر خواتین، کو تشدد کا نشانہ بنائیں۔
ماہرین نے منی پور میں حقوق انسانی کمیشن اور وکلاء کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی ستائش کی لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ انہیں مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خیال رہے کہ گلڈ آف انڈیا (ای جی آئی) نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے ۳؍ دن پہلے اپنی رپورٹ داخل کی تھی جس میں حکومت کی جانب سے منی پورمیں انٹرنیٹ معطل کرنے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ جو میڈیا ادارے امپھال میں ہیں ، وہ ’’میتی میڈیا‘‘ میں تبدیل ہوگئے تھے۔ 
منی پور کے وزیراعلیٰ این بیرن سنگھ نے ای جی آئی کی رپورٹ پراپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس سے ’’مزید جھڑپیں‘‘ ہورہی ہیں۔ منی پور تشدد پر رپورٹ شائع کرنے پر دوسری فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ جولائی میں اینی راجا، نشاسدھو اوردکشا دویدی کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا، جو منی پور میں نیشنل فیڈریشن آف انڈیا ویمنز ٹیم کا حصہ تھے، اوران کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ منی پور میں دراصل حکومت کی جانب سے تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے حکومت کی جانب سے تشدد ختم کرنے کیلئے کئے گئے اقدامات پربھی تشویش کا اظہار کیا جو تقریبا ً ۴؍ ماہ سے زائد وقفےسے جاری ہے۔ پریس ریلیز میں ماہرین نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت کی جانب سے منی پور تشدد کو روکنے کیلئے کئے گئے سست رفتار رد عمل پر بھی تشویش ہے جن میں قانون نافذ کرنا اور منی پور میں جسمانی اور جنسی تشدد نیز نفر ت آمیز تقاریر کو روکنا شامل ہے۔ اس رپورٹ میں حکومت ہند کی جانب سے تشدد کو روکنے کیلئے ناکافی اقدامات پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ 
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ماہرین کی ٹیم میں ۱۸؍ افراد شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹ کے آخر میں لکھا کہ ہمیں امید ہے کہ منی پور تشدد میں قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ہندوستان کا رد عمل 
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان نے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ غیر ضروری اور گمراہ کن ہے۔ اقوا م متحدہ کی ٹیم نے جو دعوے کئے ہیں، حالات اس کے برعکس ہیں۔ منی پور میں اب امن قائم ہے۔ حکومت ہند، ملک کے اور منی پور کے لوگوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ میں جوابدہ ’’دی پرماننٹ مشن آف انڈیا‘‘ نے اس رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین منی پور تشدد اور اس معاملے میں حکومت ہند کے اقدامات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ مشن نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کے گروپ کو ان پیش رفتوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے، جن کا کونسل کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خبریں جاری کرنے کیلئے طے شدہ طریقہ کار کی پابندی کرنی چاہئے اور حکومت ہند کی جانب سے طلب کئے گئے حقائق کا انتظار کرنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK