Inquilab Logo

مانخورد :جنتانگر کے چھوٹے سے ’محلہ کلینک‘ سے لوگ بڑی تعداد میں استفادہ کررہے ہیں

Updated: November 16, 2023, 9:03 AM IST | Mumbai

غریبوں کوپرائیویٹ کلینک کے مہنگے علاج سے راحت مل رہی ہے اور ان کا قریبی سرکاری اسپتال جانے کا خرچ بھی بچ رہا ہے۔ اس دواخانہ میں زیادہ تر خواتین علاج کیلئے آتی ہیں

A doctor is examining a woman at Mohalla Clinic in Jantangar.
جنتانگر کے ’محلہ کلینک‘ میں ڈاکٹر ایک خاتون کی طبی جانچ کررہی ہیں۔

 یہاں جنتا نگر کے پرائمری اسکول کے ایک کلاس روم میںگزشتہ دنوں تقریباً ۷۰؍خواتین ایک میڈیکل سینٹر کے بارے میں اپنی رائے دینے کیلئے جمع ہوئی تھیں جو پڑوس میں جاری ہے ۔ اس علاقہ کی   آبادی ساڑھے ۱۲؍ ہزار ہے  ۔محلہ کلینک شہر کا پہلا کمیونٹی انیشیٹیو ہے جو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی۲۰۱۵ءکی مہم کی طرز کی گئی ہے جس کے تحت پسماندہ طبقے کو معمولی فیس پر معیاری علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ مانخورد   میں کلینک امسال اکتوبر کے پہلے ہفتے میں شروع کیا گیا تھا تاکہ علاقے میں پرائمری ہیلتھ کیئر کی شدید مانگ کو پورا کیا جا سکے۔
  یہ پرائمری ہیلتھ کیئرسینٹر کامگار سنرکشن سمان سنگھ(کے ایس ایس ایس)   کے ذریعہ چلایا جارہا ہے، جو ایک  ٹریڈ یونین  ہے جو مزدوروں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں، معمار، بڑھئی، الیکٹریشن اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسے امریکہ میں مقیم ہندوستانی نژاد ڈاکٹروں کے ایک گروپ کے ذریعہ مالی اعانت دی جاتی ہے۔
 طبی سہولت فراہم کرنے والے اس مرکز کے کوآرڈینیٹر محمد عمر شیخ نے کہاکہ ’’ہمیں اس کلینک کو چلانے کیلئے ماہانہ اوسطاً ڈیڑھ لاکھ روپے کی ضرورت ہے (جو ڈاکٹر کی فیس، ادویات اور بجلی بل کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے)۔ امریکہ میں مقیم نیورو لوجسٹ ڈاکٹر نیلے شاہ اور ان کے دوستوں کا گروپ اس وقت فنڈس کی فراہمی میں ہماری مدد کر رہا ہے۔‘‘ 
 ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق مذکورہ کلینک جنتا نگر کی جھوپڑپٹیوںمیں۱۰ بائی ۲۰؍  فٹ کےمکان میں جاری ہے۔ ۳۰؍سالہ نور فاطمہ اور اس کے ۵؍ سالہ بیٹے جس کا حال ہی میں کھانسی، نزلہ اور بخار کا علاج کرایا گیا تھا، نے بتایا کہ اس طبی سہولت نے انہیںمہنگے علاج کے بوجھ سے بچالیا  ہے۔ پہلے لوگ پرائیویٹ ڈاکٹروں سے رجوع کرتے تھے یا گوونڈی کے شتابدی اسپتال یا گھاٹکوپر کے راجاواڑی اسپتال جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میرے شوہر ٹیکسی ڈرائیورہیں جو ماہانہ ۱۵؍ ہزار روپے کماتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر کی فیس کے طور پرڈھائی ، ۳۰۰؍ روپے  اور ادویات پرہزار، دوہزار خرچ کرتے تھے۔ اسپتال آنے جانے پر بھی رقم خرچ ہوتی تھی۔ مزید برآں ہمیں لمبی قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔اسی لئے  یہ کلینک ہمارے لئے ایک نعمت  ہے۔‘‘گلستہ خان (۳۸) اسپتالوں میں مرد ڈاکٹروں سے امراض نسوانی کے مسائل پر بات کرنے سےہچکچاتی تھی ۔ اس کا شوہر اس کے ساتھ نہیں آسکتاتھا کیونکہ وہ صحت کے مسائل کے سبب گھر میں صاحب فراش ہے۔  انہوں نے کہا کہ ’’ایک خاتون ڈاکٹر کے ذریعے چلایا جانے والا کلینک ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ ‘‘
  فاطمہ اور گلستہ محلہ کلینک سے مستفید ہونے والے ایک ہزار ۱۲۲؍ مریضوں میں شامل ہیں۔ اب انہیںکسی بیماری کے علاج کیلئے   طویل فاصلہ طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 چونکہ مقامی افراد کو علاج کیلئے  فاصلہ اور اخراجات رکاوٹیں تھیں اس لئے بہت سے لوگ فرضی ڈاکٹروں کی چنگل میں پھنس جاتے تھے ۔دو دہائیوں سے جنتا نگر میں رہنے والےایک شخص نے بتایا کہ ’’ان میں سے بہت سے ڈاکٹروں کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں۔ انہوں نے یہاں کلینک بنا رکھا ہے اور جب میونسپل افسران معائنے کیلئے آتے ہیں تو  دیکھا گیا ہے کہ وہ کلینک کا شٹربند کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ لوگ یا تو ڈیڑھ سو ، ڈھائی سو روپے کسی فرضی ڈاکٹر کودکھانے  پر اور۵۰،۶۰؍ روپے  دوائیوں پر خرچ کرتے ہیں یا سرکاری اسپتالوں کےایک جانب کے سفر پرڈیڑھ ، ۲۰۰؍ روپے خرچ کرتے ہیں، لمبی قطاروں میں انتظار کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کومرض بتانے اور ادویات پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب سے کلینک کا افتتاح ہوا ہے، یہاں روزانہ ۶۰، ۷۰؍ مریض آتے ہیں جن میں  زیادہ ترخواتین  ہیں ۔وہ خوش ہیں کہ ایک خاتون ڈاکٹر --  ڈاکٹر شلپا ورما – --روزانہ دوپہر۱۲؍ بجے سے شام ۵؍ بجے کے درمیان کلینک پر دستیاب رہتی ہیں جبکہ ادویات مفت دی جاتی ہیں، مریض ایک مرتبہ کنسلٹیشن کیلئے ۲۰؍ روپے فیس ادا کرتے ہیں۔
 ۲۸؍ سالہ رضیہ شیخ، جو گزشتہ۱۰؍برس سے اس علاقے میں مقیم ہیں، نے کہاکہ ’’وہ ہماری بیماری سمجھنے کیلئے ہمیں وقت دیتی ہیں اور ہم یہاں میونسپل اسپتالوں یا پرائیویٹ کلینک میں علاج کرانے سے زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔‘‘
 ڈاکٹر ورماجو کلینک کے سربراہ ہیں اور نوی ممبئی کے جوئی نگر میں رہتے ہیں، نے کہا کہ علاقے میں ٹائیفائیڈ، نزلہ، کھانسی، بخار اور جِلد سے متعلق بیماریاں عام ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ گھنی آبادی والے علاقوں میں سے ایک  ہے جہاںکے لوگ غربت، کم آمدنی  اور منشیات کی لعنت جیسے مسائل سے دوچار  ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے دھاراوی اور کرلا کے جھوپڑپٹی علاقوںمیں بھی کام کیا ہے لیکن صحت کے مسائل اس علاقے میں مختلف ہیں۔ انہیں علاج کی بہترین سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
 ’کے ایس ایس ایس‘ کے صدر بلال خان نے کہا کہ ۹۰؍ فیصد آبادی جھوپڑپٹیوں میں رہنے کے باوجود اس  (ایم ایسٹ)  وارڈمیں سرکاری اسپتال نہیں ہے۔

mankhurd Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK