Inquilab Logo

کیپٹل ہل سے کئی حساس سرکاری دستاویز ات غائب

Updated: January 09, 2021, 1:04 PM IST | Agency | Washington

وزارت انصاف نے دستاویز کے غائب ہونے کو امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا، تفتیشی ایجنسیوں نے معاملے کی جانچ شروع کی، گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری

The number of security personnel around Capitol Hill has been increased.Picture :Agency
کیپٹل ہل کے اطراف سیکوریٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ تصویر: ایجنسی

امریکی  پارلیمنٹ  کی عمارت’ کیپٹل ہل‘ پر ٹرمپ حامیوں کے حملے کے ایک دن بعد یہ سنسنی خیز  انکشاف ہو ا ہے کہ عمارت میں موجود کئی حساس دستاویز غائب ہیں۔ اس کی وجہ سے حکام میں تشویش ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے بیشتر ایسی دستاویز ہیں جن کے غائب ہونے سے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔  جمعرات کو  امریکی وزارت  برائے انصاف نے اس بات کی اطلاع دی ۔   واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا اب تک کا رویہ امریکی نظام  کے یکسر مخالف رہا ہے۔  انہوں نے گزشتہ چند مہینوں میں اکثر  ایسے بیان دئیے ہیں جو پورے انتظامیہ پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ۲۰۱۱ء میں پاکستان  میں اسامہ بن لادن کو مارنے کا ڈرامہ رچا گیا تھا۔ایبٹ آباد میں اسامہ موجود  نہیں تھا اوبامہ حکومت نے کسی اور کو مار کر پانی میں بہا دیا تھا۔  اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ باتیں امریکی حکام خاص کر دفاع اور خارجہ محکمے کے اہلکاروں کیلئے پریشان کن ہیں۔  بعض  عالمی اخبار اور ویب سائٹ نے ٹرمپ پر ان معاملات کی حساس دستاویز کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔ اب محکمۂ انصاف کی اس اطلاع کے بعد کہ کئی حساس دستاویز غائب ہیں خفیہ محکمے کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ 
  وزارت انصاف نے اس تعلق سے کوئی تفصیل جاری نہیں کی ہے لیکن اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ا لبتہ اب کیپٹل ہل  کے اطراف  سیکوریٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ کم از کم ۶؍ ہزار ۲؍ سو اہلکاروں کی کمک بلوا کر عمارت کے اطراف میں تعینات کیا گیا ہے  تاکہ آئندہ کوئی ناخوشگوار  واقعہ پیش نہ آئے۔  اس کیلئے مختلف ریاستوں سے فوجی ٹکڑیاں بلوائی گئی ہیں۔ یہ نئی تعیناتی کم از کم ۲۰؍ جنوری تک رہے گی جب نومنتخب صدر اور نائب صدر حلف اٹھائیں گے۔ 
حملے کی تفتیش شروع، اب تک ۶۸؍ گرفتار
  ادھر تفتیشی ایجنسیوں نے  بدھ کو ہوئے حملے کی شروع کر دی ہے۔  اس کام کیلئے بھی سیکڑوں تفتیش کاروںکو مامور کیا گیا ہے جن کا کام ہے حملہ آوروں کے ہجوم میں شامل افراد کی شناخت کرنا  اور انہیں گرفتار کرنا۔ واشنگٹن کے قائم مقام اٹارنی مائیکل شیرون نے کہا ہے کہ فیڈرل کورٹ نے ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں  اب تک ۱۵؍ افراد کو چارج کیا ہے جبکہ ۴۰؍ لوگوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔یہ فرد جرم واشنگٹن کی خصوصی عدالت نے عائد کی ہے۔   ان میں سے بیشتر پر غیر قانونی طریقے سے  کانگریس کی  عمارت میں داخل ہونے کا الزام ہے۔ جبکہ بعض پر توڑ پھوڑ اور املاک کی چوری کا بھی الزام ہے۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں پر  آتشیں اسلحہ کے قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔ مائیکل شیرون نے بتایا کہ گرفتار کئے گئے لوگوں میں سے ایک کے پاس سے آٹومیٹک پستول اور ۱۱؍ دستی بم بھی برآمد کیا گیا ہے۔ مائیکل شیرون نے بتایاکہ واشنگٹن میں صورتحال انتہائی ناز ہے اس لئے ہم گرفتاریوں کے معاملے میں کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتے۔  ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پولیس نے حملہ آوروں کو ترجیحی بنیاد پر پہلے عمارت سے باہر نکالنے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جبکہ بعض مقامات پر خود پولیس کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اس لئے ان میں سے کئی لوگوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ البتہ ملزمین کی شناخت کیلئے ویڈیو  فوٹیج دیکھے جا رہے ہیں۔  اور اور اہم بات جو مائیکل شیرون نے بتائی وہ یہ تھی کہ’’ مظاہرین اور حملہ آوروں کی تعداد ہزاروں میں تھی اس لئے ان سب کو پہچان لینا اور گرفتار کرنا آسان نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض کو گرفتار کرنے میں مہینوں اور بعض کو گرفتار کرنے میں برسوں لگ جائیں۔  واشنگٹن  کے اٹارنی جنرل جیفری روزن بتایا کہ اس تفیش میں ایف بی آئی، میٹروپولیٹن پولیس،  اے ٹی ایف  کے علاوہ اسپیشل ایجنٹ سمیت مختلف ایجنسیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ہنگامے کے دن ہی پولیس نے ۵۲؍ لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔اس  کے بعد مزید گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اب تک مجموعی طور  پر ۶۸؍ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ ان میں سے اکثر سے پوچھ تاچھ ہو رہی ہے۔ 

washington Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK