Inquilab Logo

کئی گاؤں اور قصبے ممبئی گوا شاہراہ کی زد میں آرہے ہیں

Updated: February 17, 2023, 7:09 AM IST | siraj shaikh | raigarh

اس ہائی وے کے ساتھ بہت سے گاؤں بائی پاس کئے جا چکے ہیں، اس ہائی وے کو کوکن کی لائف لائن کہا جارہا تھا لیکن کام کے مسلسل تعطل کاشکارہو نے اور راستے محفوظ نہ ہونے سے ۲۰۱۰ء سے اب تک اس پر تقریباً ۲۵۰۰؍مسافر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ،مقامی باشندوں کا کہنا ہے ہائی وے اپنے آپ میں ایک معمہ بن چکا ہے

The 33 km highway from Vatul to Talgaon is 96% complete, so the villages on this highway are not visible at all.
وتول سے تلگاؤں تک کا ۳۳؍ کلومیٹرکا ہائی وے کا کام ۹۶؍ فیصد مکمل ہونے کی وجہ سے اس ہائی وے پر موجود گاؤں بالکل نظر نہیں آرہے ہیں

ممبئی سے گوا تک شاہراہ کا تعمیراتی کام  ا مید کے مطابق نہیں ہورہا ہے جس سے مقامی باشندوں میں ناراضگی ہے۔شاہراہ  سے متصل جو شہر موجودتھے اس کی وجہ سے ممبئی گوا شاہراہ کو کوکن کی لائف لائن کہا  جا رہا تھا  لیکن اس پر ایک تو کام انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے اور دوسری جانب کئی گاؤں ، قصبات اور دیہات اس کی زد میں آرہے ہیں۔ا س وقت ممبئی گوا قومی شاہراہ نمبر۶۶ کا تعمیراتی کام شروع ہے  اور اس کی زد میں کئی دیہات اور قصبے آرہے ہیں جس کی وجہ سے تجارت، روزگار اور کاروبار میں خلل پڑ رہا ہے۔دوسری جانب اب یہ ۶۶؍ نمبر کی شاہراہ  جوکوکن کی لائف لائن ہے، عام لوگوں کیلئے جان لیوا بنتی جارہی ہے۔ تاہم، پنویل کے پلسپے سے زراپ اور کلمتھ تک چار لین والی شاہراہ کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کا کام ابھی بھی متوقع رفتار سے نہیں ہورہا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہےیہ ہائی وے اپنے آپ میں ایک معمہ بن چکا ہے۔
 ممبئی گوا نیشنل ہائی وے کی چار لین کا کام شروع ہونے کے بعد دو متبادل تھے، اسفالٹنگ یاکنکریٹنگ ۔تاہم چونکہ ان دونوں  متبادلوں کو یکے بعد دیگرے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس لیے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ہائی وے کا کام تکنیکی طور پر تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ تاہم اس کام کیلئے زمین کے حصول میں انتظامی غلطیوں اور محکمہ جنگلات کے اجازت ناموں میں تاخیر کی وجہ سے شاہراہ کا کام تقریباً ۱۲؍سال سے تعطل کا شکار ہے۔ اگرچہ ممبئی سے پنویل تک ۶۰؍ کلومیٹر ہائی وے کو اسفا لٹنگ  کے ساتھ مکمل کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک کنکریٹ نہیں کیا گیا ہے۔  شاہراہ کا اگلا حصہ پنویل تا انداا پور  ۸۴؍کلومیٹر  پرمشتمل ہے  ۔ اس سڑک کا صرف ۳۰؍ فیصد کام مکمل ہوا ہے۔رام واڑی، وڈکھل، گڈب جیسے قصبات انداا پور ہائی وے سے غائب ہو چکے ہیں کیونکہ اس ہائی وے کے ساتھ بہت سے گاؤں بائی پاس  کئے جا چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کولاڈ ورسگاؤں سے روہا شہر تک کا راستہ اب بھی ہائی وے سے متصل ہی ہے، اس لیے مقامی لوگوں کو اب بھی ہائی وے کے ساتھ ہی روزگار اور کاروبار کے مواقع مل رہے ہیں۔مانگاؤں تعلقہ کے انداپور سے وڈاپلے گاؤں تک ۲۷؍کلومیٹر کا کام ۴۷؍ فیصد مکمل ہو چکا ہے ۔ مانگاؤں شہر کو بھی بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ پولاد پور شہر میں ہائی وے انڈرپاس ہو جانے کی وجہ سے اس گاؤں میں رکشااور منی ڈورکے ساتھ ساتھ نجی لگژری  بسوں کے مسافروں کی نقل و حمل، پھول اور پھل فروشوں، ہوٹل والوں اور شراب فروشوں کا کاروبار متاثر ہونے کااندیشہ ہے۔پولادپور رائے گڑھ ضلع کا آخری قصبہ ہے۔
 کشیڑی گھاٹ کا ۹؍کلومیٹر کا    راستہ شاہراہ پر ہے اور اس سے آگے ممبئی اور گوا کی طرف جانے والے راستے پر دو سرنگوں کا کام جاری ہے۔ کشیڑی گھاٹ تا پرشورام گھاٹ کا ۳۴؍کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔اس راستے کا تقریباً ۷۶؍ فیصد فاصلاتی کام مکمل ہو چکا ہے اور بھرنا ناکہ اور دیگر بستیاں ہائی وے سے غائب ہو چکی ہیں۔ آروالی اور کانٹے گاؤں کے درمیان ۳۹؍کلومیٹر ہائی وے کا صرف ۲۲؍ فیصد کام مکمل ہواہے اور کانتے سے واکڈ تک کا فاصلہ ۴۷؍ کلو میٹر ہے اور اس کاصرف۲۵؍ فیصد کام مکمل ہوا ہے، اس ہائی وے کے کئی گاؤں اب بھی ممبئی گوا ہائی وے پر دکھائی دے رہے ہیں۔اس کے بعد وتول سے تلگاؤں تک کا ۳۳؍ کلومیٹرکا ہائی وے کا کام ۹۶؍ فیصد مکمل ہونے کی وجہ سے اس ہائی وے پر موجود گاؤں بالکل نظر نہیں آرہے ہیں۔ پنویل  کے پلسپے تا سندھو درگ کے زراپ تک ممبئی گوا نیشنل ہائی وے کا کام کا بجٹ آغاز میں ۹۶۰؍کروڑ روپے کا تھا جو بعد میں بڑھ کر ۱۵۶۰؍ کروڑ روپے ہو گیا ۔ تاہم اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ پوے ہائی وے کے تعمیراتی کام کابجٹ ۱۲؍ ہزار ۳۰۰؍ کروڑ روپے ہے۔ممبئی گوا شاہراہ  پر۴ ؍لین کا کام ۲۰۱۰ء میں شروع ہوا ۔تب سے آج تک ممبئی گوا قومی شاہراہ نمبر ۶۶؍پر تقریباً ۲۵۰۰؍مسافر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور ۸؍ہزار مسافر زخمی ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ شاہراہ کوکن کی لائف لائن نہیں ہےبلکہ ایک معمہ بن چکی ہے جس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK