کبھی سیکولر حکومت بنام مراٹھی طاقت مقابلہ اب ہندوتوا وادی حکومت بنام مراٹھی طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ مراٹھی طاقتیں بھی خود کو ہندوتوا وادی کہتی ہیں
EPAPER
Updated: July 09, 2025, 11:23 PM IST | Nadir | Mumbai
کبھی سیکولر حکومت بنام مراٹھی طاقت مقابلہ اب ہندوتوا وادی حکومت بنام مراٹھی طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ مراٹھی طاقتیں بھی خود کو ہندوتوا وادی کہتی ہیں
۲۰۰۸ء میں مہاراشٹر کے اقتدار پر کانگریس قابض تھی۔ اس وقت اپنی نئی نویلی پارٹی کو رفتار دینے کیلئے راج ٹھاکرے نے اتر بھارتیوں کے خلاف اچانک مہم چھیڑ دی۔ جگہ جگہ یوپی بہار کے ٹھیلے والوں کو پیٹا جانے لگا۔ ان سے زبردستی ’جے مہاراشٹر‘ بلوایا گیا۔ بظاہر کانگریس لیڈران راج ٹھاکرےکے اس اقدام کی مذمت کرتے مگر ان کارکنان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جو ’مراٹھی مانس‘ کے وقار کے نام پر پورے شہر میں دندناتے پھر رہے تھے۔
اس وقت کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے ۔ اس وقت ممبئی کے پولیس کمشنر ڈی این جادھو تھے۔راج ٹھاکرے کے کارکنان کی ہنگامہ آرائیوں کے خلاف دن بھر میڈیا میں خبریں چل رہی تھیں۔ سوال کیا جا رہا تھا کہ کیا اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے راج ٹھاکرے کو گرفتار کیا جائے گا؟ دن میں جادھو نے میڈیا کو بیان دیا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ شام کو ان کی بیٹی کی شادی کی تقریب تھی۔ اس تقریب میں راج ٹھاکرے چیف گیسٹ یعنی مہمان خصوصی تھے۔ اس مضحکہ خیز صورتحال پر جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ ولاس رائو دیشمکھ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس سے بھی مضحکہ خیز جواب دیا کہ ’’ جب تک عدالت کسی کو مجرم قرار نہیں دیتی اس وقت تک وہ بے قصور کہلاتا ہے اس لئے کمشنر کا راج ٹھاکرے کو اپنی بیٹی کی شادی میں مدعو کرنا بالکل بھی غلط نہیں ہے۔‘‘
اب وقت بدل گیا ہے۔ کانگریس اور این سی پی کی سیاست کنارے لگ گئی ہے۔ بی جے پی پورے غلبے کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ کہا جانے لگا ہے کہ مودی لہر نے تمام ہندوئوں کو ذات پات اور زبان سے اوپر لا دیا ہے اور سب ’ہندوتوا‘ کے نام پر ایک ہو چکے ہیں۔کم از کم الیکشن کے نتائج اور مسلمانوں پر تشدد کے وقت تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن مہاراشٹر میں مراٹھی اور غیر مراٹھی کا مسئلہ جوں کا توں ہے ۔ یا یہ کہیں کہ ’جوں کا توں‘ زندہ کیا گیا ہے۔ ٹھیک وہی منظر نامہ ہے جو ۲۰۰۸ء میں تھا۔ ایم این ایس کارکنان ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے دکانداروں، چوکیداروں اور کلرکوں کی پٹائی کر رہے ہیں جو مراٹھی نہیں بوسکتے یا نہیں بولنا چاہتے۔ دیویندر فرنویس بھی ولاس رائو دیشمکھ کی طرح قانون کی پاسداری کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہتے ہیں ’’ مہاراشٹر میں مراٹھی کی حیثیت مقدم ہے۔ کسی بھی زبان کے مقابلے میں مراٹھی کو ترجیح دی جائے گی لیکن اس کیلئے کسی نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔‘‘ فرنویس کی یہ یقین دہانی اور ایم این ایس کارکنان کا ’قانون ہاتھ میں لینے‘ کا عمل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ دیویندر فرنویس کی ہر دوسرے چوتھے روز راج ٹھاکرے سے ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں مسکراتے ہوئے ملتے ہیں۔ پھر دونوں باہر نکل کر اپنے اپنے کام پریعنی فرنویس قانون کی پاس داری کی یقین دہانی کروانے اور راج ٹھاکرے مراٹھی نہ بولنے پر ’کان کے نیچے‘ لگانے کی دھمکی دینے پر لگ جاتے ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ۱۷؍ سال بعد مہاراشٹر پھر سیاست کے اسیبھنور میں آپہنچا ہے جہاں زبان کی بنیاد پر ووٹروں میں انتشار پیدا کرکے انہیں اپنی اپنی طرف لانے کی کوشش جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت مراٹھی طاقت کے مقابلے سیکولر حکومت تھی ، آج مراٹھی طاقت کے سامنے ہندوتوا وادی حکومت ہے۔ اس وقت سیکولر حکومت ریاست کو زبان کے نام پر تقسیم کرنے کا الزام عائد کر رہی تھی اور آج ہندوتوا وادی حکومت وہی الزام لگا رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں شیوسینا اور ایم این ایس جیسی پارٹیوں کے خوف سے ممبئی کے اتربھارتیہ ووٹ یکطرفہ طور پر کانگریس کو مل جاتے تھے ۔ اب یہی کارڈ بی جے پی کے کام آئے گا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ اس وقت شیوسینا کی ہنگامہ آرائی پر بی جے پی خاموش رہا کرتی تھی۔ اب کانگریس خاموش دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی اپنے آپ میںکچھ کم دلچسپ بات نہیں ہے کہ جنہیں لوگ مراٹھی طاقت کہہ رہے ہیں وہ بھی خود کو ہندوتوا وادی کہتے ہیں۔ مستقبل قریب میں عوام کے ووٹوں کا رجحان بتائے گا کہ وہ لڑائی سے مخمصے میں ہیں یا ان کا نظریہ کسی ایک کے ساتھ ہے۔