جمعیۃ علماء ہند کے دو روزہ اجلاس کے اختتام کے بعد صدر جمعیۃ مولانا ارشد مدنی کا پریس کانفرنس سے خطاب۔
EPAPER
Updated: May 05, 2025, 11:42 AM IST | New Delhi
جمعیۃ علماء ہند کے دو روزہ اجلاس کے اختتام کے بعد صدر جمعیۃ مولانا ارشد مدنی کا پریس کانفرنس سے خطاب۔
ملک کے تشویشناک حالات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئےجمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے انتہائی دردبھری آوازمیں کہاکہ ہم نے اپنی ۸۵؍سالہ زندگی میں ملک میں اتنے برے حالات کبھی نہیں دیکھے، جیساکہ اب ہے۔ اس تشویش کا اظہار انہوں نے جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کے دو روزہ اجلاس کے خاتمہ کے بعدیہاں منعقدہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر دعویٰ کیا کہ ارباب اقتدارکی کرسی جس پتھر پر ٹکی ہوئی ہے وہ نفرت ہے۔ ان کا بس ایک ہی نظریہ اوراصول ہے کہ نفرتیں پیداکرو عوام کو مذہب کی بنیادپر تقسیم کرواورآسانی سے حکومت بنالو، افسوسناک سچائی یہ ہے کہ حکومت ایساکوئی کام نہیں کرنا چاہتی جس سے ملک کے عوام کو صبروسکون حاصل ہو، لوگوں کو نوکریاں اور روزگار ملے، کاروبارکے وسائل پیدا ہوں یا عوام کے معیارزندگی میں کوئی بہتری آئے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آج ملک میں جس طرح کے حالات ہیں اسے دیکھ کر ہم ہی نہیں ہمارے غیر مسلم برادران بھی دکھ محسوس کرتے ہیں، ہر معاملہ کو مذہب سے جوڑکر نفرت کی تشہیر آج کی سیاست کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ پہلگام دہشت گردانہ حملہ کو لیکر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کا قتل سخت گناہ ہے اورجولوگ ایساکرتے ہیں وہ انسان نہیں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ہر طرح کے ظلم کی وہ کسی بھی شکل میں ہومذمت کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے گھروں پر بلڈوزرکارروائی کو لیکرجب کچھ لوگوں نے سوال کیا تو مولانا مدنی نے کہا کہ اگر وہ گھر واقعی دہشت گردوں کے تھے توہم اس میں کچھ بھی برامحسوس نہیں کرتے۔ اس کارروائی کو بہتر سمجھتے ہیں لیکن اب محض شک کی بنیادپر کسی بے گناہ کے گھر کو ملبہ کا ڈھیربنادیا گیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند شخص اسے ٹھیک نہیں مانے گا۔
مولانا ارشد مدنی جو ملک کے حالات پر ہمیشہ بے لاگ رائے رکھتے ہیں، نے آگے کہا کہ کشمیر کے ایک ایسے سیاحتی مقام پر جہاں اس روزدو، تین ہزارسے زیادہ سیاح جمع تھے کسی سیکوریٹی کا نظم نہ ہونااپنے آپ میں ایک عجیب بات ہے، ایک بڑاسوال یہ بھی ہے کہ جہاں چپے چپے پر فوج اوربی ایس ایف کے جوان تعینات ہیں دہشت گرد اس سیاحتی مقام پرآسانی سے پہنچ کیسے گئے؟ اورقتل وغارت گری کرکے فرار بھی ہو گئے؟یہ سوال پہلے دن سے ملک میں اٹھ رہاہے مگر اب تک اس کا کوئی جواب نہیں ملاہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات تویہ ہے یہ دہشت گردانہ حملہ کے بعد بھی ڈیڑھ گھنٹہ تک پولس یافوج کے لوگ وہاں نہیں پہنچے۔ مقامی لوگوں نے متاثرین کی مددکی یہاں تک کہ اپنی جان پر کھیل کر زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، کیا یہ سیکوریٹی کی خامی نہیں ہے؟ ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک اتحاد اور پیارومحبت سے آگے بڑھتااورترقی کرتاہے اس لئے ملک میں پیارومحبت کی حکومت چاہئے، نفرت کی حکومت نہیں، نفرت کی سیاست ملک کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے اوربدقسمتی سے ہمارے ملک کو نفرت کے جس راستہ پر لگادیاگیا ہے اگر روکا نہ گیا تو مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہر شہری کیلئے یہاں سانس لینا مشکل ہوجائے گا۔
وقف ترمیمی قانون کے حوالہ سے کئے گئے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم وقف قانون میں ترمیم کو مذہب میں دخل اندازی سمجھتے ہیں ۔ جو ترمیمات کی گئی ہیں اور پرانے ضابطوں کو جس طرح ختم کیا گیا ہے اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ہمارے اوقاف کو ہڑپ لینا چاہتی ہے۔ اس سوال پر کہ اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ہونا چاہئے یانہیں مولانا نے کہا کہ ہماری لڑائی کسی فرد یا ملک کے عوام سے نہیں حکومت سے ہے جو ہمارے مذہبی امورمیں صریحاً دخل دے رہی ہے۔ ہم کسی مسئلہ کو لیکر سڑکوں پر اترنے کو مفید نہیں سمجھتے۔ کوئی ہمیں اچھاسمجھے یا برا، کوئی فرق نہیں پڑتاکہ ہمارے بزرگوں نے کبھی ایسانہیں کیا اس لئے ہم بھی اس چیز کو اچھانہیں سمجھتے۔