Inquilab Logo Happiest Places to Work

لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے میٹنگ

Updated: May 07, 2025, 10:52 PM IST | Mumbai

مسجد معراج میں چیتاکیمپ کی۱۴؍ سے زائد مساجد کے ذمہ داران نے شرکت کی۔پولیس کی سختی کے متعلق تبادلہ خیال۔ سینئر انسپکٹر سے ملاقات۔ قانونی چارہ جوئی پر بھی اتفاق

A speaker mounted on a mosque minaret
 ایک مسجد کے مینار پر نصب اسپیکر

مساجد میں‌ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پولیس کی سختی کے خلاف مسجد معراج چیتا کیمپ میں منگل کو عشاء کی نماز کے بعد میٹنگ کی گئی اور اس بات پر تبادلۂ خیال کیا گیا کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو۔ اس میٹنگ میں علاقے کی تمام مسلک کی مساجد کے ٹرسٹیان نے شرکت کی۔ آج (جمعرات کو)  اسی تعلق سے سینئر انسپکٹر سے ملاقات کی جائے گی اور ان کا کیا رخ ہوتا ہے، واضح ہونے کے بعد ماہر وکلاء سے قانونی صلاح ومشورہ کے علاوہ وکھرولی کی۱۹؍ مساجد کے ٹرسٹیان کے اشتراک سے قانونی کارروائی کے تعلق سے اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔
حکمت عملی کیا ہوگی؟
 دراصل یہاں پولیس کی سختی کچھ زیادہ ہی ہے جس سے لوگوں میں ناراضگی پائی جارہی ہے کہ آخر مساجد میں اذان میں بمشکل  ڈیڑھ دو منٹ لگتا ہے پھر بھی اتنی سخت پابندی اور جرمانہ عائد کیا جانا کہاں کا انصاف ہے۔نمائندہ انقلاب نے اس تعلق سے مسجد معراج کے ٹرسٹی محمد عمر، ابوالحسن اور رفیق شیخ سے بات چیت کی۔ ان حضرات نے اس پر‌ اطمینان ظاہر کیا اور بتایا کہ مسئلے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے چند مساجد کے ٹرسٹیان کے علاوہ سبھی مساجد کے ٹرسٹیان آئے اور اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا۔ان حضرات کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینئر انسپکٹر کا کیا جواب ہوتا ہے، اسی حساب سے ایڈوکیٹ مبین سولکر اور ایڈوکیٹ مچھالا وغیرہ سے رابطہ قائم کیا جائے گا تاکہ قانونی رہنمائی مل  سکے اور وکھرولی کی مساجد کے ٹرسٹیان کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا گیا ہے تاکہ ان کے ساتھ چیتاکیمپ کے ٹرسٹیان بھی مل جائیں کیونکہ مسئلہ ایک ہے‌، اس طرح مشترکہ کوشش کی جائے۔
اے ٹی سی کے ٹرسٹیان کو بھیجے گئے  پیغام میں
 دو سخت قابل اعتراض نکات 
 ٹرامبے پولیس کے اینٹی ٹیررسٹ سیل (اے ٹی سی) افسر سشیل لونڈھے کے ذریعے چیتاکیمپ وغیرہ کی حدود میں واقع مساجد کے لئے مائیک کی جگہ اسپیکر لگانے اور اجازت لینے کے لئے جو میسیج بھیجا گیا ہے اس میں دو قابل اعتراض نکات شامل کئے گئے ہیں۔
  پہلا یہ کہ لاؤڈاسپیکر ہٹاکر چھوٹا اسپیکر لگانا ۔ یہ اس لئے قابل اعتراض کہا جارہا ہے کہ پولیس کو آواز کی سطح کو طے شدہ ضابطے اور ڈیسیبل کے مطابق رکھوانا ہے نہ کہ لاؤڈاسپیکر ہٹوانا۔ دوسرے جو اسٹرکچر قانونی ہوگا اسی کو اجازت دی جائے گی۔ یہ اس لئے قابل اعتراض ہے کہ پولیس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اسٹرکچر  قانونی ہے یا نہیں ،‌ معلوم کرے۔ یہ کام بی ایم سی اور کلکٹر یا دیگر ایجنسیز کا ہے پولیس کا نہیں۔ اس لئے ٹرسٹیان حیران ہیں کہ یہ بندش کس بنیاد پر اور کیوں لگائی جارہی ہے اور یہ حق پولیس کو کس نے دیا ہے۔دیگر علاقوں وکھرولی، ایم آئی ڈی سی اندھیری، پوائی، گوونڈی، مالونی یا شہر کے کسی اور حصے میں پولیس نے اسٹرکچر قانونی ہے یا اس کی کیا نوعیت ہے وغیرہ ، ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔ صرف اجازت لینے کے لئے کہا جارہا ہے۔ ویسے بھی پولیس اسٹیشنوں میں قائم اے ٹی سی کا کام علاقے کی حد تک غیر قانونی سرگرمیوں، بالخصوص غیرملکیوں کی آمد ، ملک کے تعلق سے کسی قسم کی  سازش وغیرہ کی نگرانی رکھنا اور معلومات حاصل کرنا ہے نہ کہ بی ایم سی اور کلکٹر کی ذمہ داری نبھانا۔ اس لئے کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK