ٹرین بلاسٹ کیس سے بری ہونے والے محمد علی شیخ کا گوونڈی میں ان کے چھوٹے سے مکان میں بیوی ، بیٹیوں اور بیٹے نے والہانہ انداز میں استقبال کیا
EPAPER
Updated: July 22, 2025, 11:24 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai
ٹرین بلاسٹ کیس سے بری ہونے والے محمد علی شیخ کا گوونڈی میں ان کے چھوٹے سے مکان میں بیوی ، بیٹیوں اور بیٹے نے والہانہ انداز میں استقبال کیا
گوونڈی کی مسلم گنجان آبادی کی تنگ گلیوں میں گراؤنڈ پلس ۲؍ کے چھوٹے سے مکان میں رہنے والے محمد علی شیخ سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں سے بری کئے جانے کے بعد جب اپنے گھر پہنچے تو بے صبری سے انتظار کرتی بچیوں، بیٹے اور بیوی نے والہانہ انداز میں استقبال کرتے ہوئے انہیں گلے لگالیا ۔ شب ساڑھے تین اور چار بجے جب محمد علی گھر پہنچے تو نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ رشتہ دار اور دوست احباب پہلے ہی ان کے استقبال کیلئے موجود تھے ۔ محمد علی کے بقول ’’۱۹؍ سال بعد ظلم کی کالی رات کا خاتمہ ہوا ہے اور خوشیوں کی صبح کا آغاز ہوا ۔ میرا ہی نہیں بلکہ میرے بیوی بچوں کا خدا پر ایمان کبھی نہیں ڈگمگایا ۔ اہل خانہ اور احباب کی دعائیں رنگ لائی اور جھوٹ پر سچ کی فتح ہوئی ۔‘‘
اس نمائندےنے تنگ سی گلی میں دوسرے منزلہ پر چھوٹے سے مکان میں جب محمد علی سے ملاقات اور بات چیت کے مقصد سےان کے گھر پہنچا تو پورا گھر رشتہ دار اور دوست احباب سے بھرا ہوا تھا ۔ محمد علی نے کچھ دیر انتظار کرانے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ۱۹؍ سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے اور رہائی کے فیصلہ کے بعد سےجیل سے گھر پہنچنے اور کئے گھنٹے دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملنے اور گٹھنوںمیں تکلیف کے باوجود نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ اس کی وجہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر گرفتاری سے لے کر اب تک ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے لیکن اہل خانہ سے ملاقات نے ۱۹؍ سال کے درد و کرب کو ختم اور دیئے گئے زخموں پرمرہم کا کام کیا ہے ۔ ‘‘
کیس میں پھنسائے جانے اور اے ٹی ایس افسران کے ظلم و ستم اور چھوٹے سے گھر میں بم بنانے کے الزامات سے متعلق کئے گئے سوال پر محمد علی نے کہا کہ’’ گرفتاری سے لے کر رہائی تک ظلم و ستم کی اتنی کہانیاں ہے کہ اسے ایک نشست میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت کے اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی نے ہماری گرفتاری پرکہا تھا کہ ’میرا نام رگھوونشی ہے ، اس کا مطلب پران جائے پر وچن نہ جائے ، میری چھتر چھایا میں رہے گا تو بچ جائے گا ، میں جیسا بولتا ہوں ویسا کرنے کا ۔‘‘ انہوںنے مزیدکہا کہ ’’ہم پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم اور تھرڈ ڈگری ٹاچر کی کہانی اے ٹی ایس کے لاک اپ سے شروع ہو کر جیل تک اور ہمارے گھر تک جاری رہی ۔آرتھر روڈ جیل کی سربراہ سواتی ساٹھے ہم پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا بیرک کھول دیتی اور پھر شب ڈھائی اور تین بجے نہ صرف کے پی رگھوونشی جیل میں آکر ہم پر تشدد کیا کرتا اور ڈرا دھمکاتا تھا بلکہ اے ٹی ایس کے افسران وجے سالسکر پوری ٹیم کے ساتھ آتا، سچن کدم ، اے سی پی بھاوسکر اور دیگر بہت سے نام ہیں جن میں ایک نام وجے بھٹ کا بھی ہے ۔ یہ وہی آفیسر ہے جسے پریشان دیکھ کر ہم نے اس کی وجہ پوچھی تھی ۔اس پر اس نے کہا تھا کہ بھگوان قسم میں یہ سب نہیں کرنا چاہتا ہوں، میں بھگوان کو جاکر کیا منہ دکھاؤں گا۔ دوسرے دن اس کے خود کشی کرنے کی خبر ہمیں ملی تھی۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ یہی نہیںہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کر ہمیں پولیس کی تیار کردہ کہانی کو من و عن قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا اور یہ دھمکی دی جاتی کہ اگر ہماری بات نہیں مانیں گے تو خواجہ یونس کی طرح انکاؤنٹر کر دیا جائے گا ۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نول بجاج نے ہمیں بولا تھا کہ ہمارے باپ نے بولا ہے کہ تمہیں پھنسایا جائے ۔ ‘‘
محمدعلی کے بقول ’’حلفیہ بیان لینے اور اے ٹی ایس کے خلاف تحریری شکایت یا کورٹ میں ان کے خلاف شکایت نہ کرنے اور وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے کے پی رگھوونشی نے مجھے ۱۰؍ لاکھ روپے ، اہل خانہ کو ایک لاکھ اور ماہانہ ۱۰؍ ہزار روپے خرچ دینے کے علاوہ دبئی میں نوکری دلانے کا لالچ بھی دیا تھا اور مجبور بھی کرتا رہا تھا ۔ بات نہ ماننے پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا جاتا رہا۔خدا کا شکر ہے کہ میرا ایمان کبھی کمزور نہیں پڑا ۔ میں نے اس ظلم و ستم کے درمیان اردو مضمون میں پی ایچ ڈی کرنے کے علاوہ ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور وکالت کے سال اوّل میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی فائنل امتحان دے کر میں لاء کی ڈگری بھی حاصل کر لوں گا ۔‘‘