مشاہدہ کیا گیا کہ شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا دوسرے مواقع، لوگ تحائف اس طرح دیتے ہیں گویا جرمانہ بھررہے ہوں۔ اور اس طرح سے یہ خوبصورت تعلق اب ایک بوجھ بنتا جارہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرہ کی فرسودہ اور خودساختہ رسمیں ہیں جن کو نبھانے کے چکر میں لوگ ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔
تحفہ لینا دینا چاہئے لیکن تحفے دینے کا مقصد دکھاوا نہیں ہونا چاہئے۔ تصویر: آئی این این
کہتے ہیں کہ تحائف کا تبادلہ محبت میں اضافے کا سبب ہوتا ہے لیکن آج کل کی تقاریب میں یہ تبادلے محبت کے بجائے زحمت کا سبب بننے لگے ہیں۔ بہت ساری جگہوں پہ مشاہدہ کیا گیا کہ شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا دوسرے مواقع، لوگ تحائف اس طرح دیتے ہیں گویا جرمانہ بھر رہے ہوں۔ اور اس طرح سے یہ خوبصورت تعلق اب ایک بوجھ بنتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے معاشرہ کی فرسودہ اور خود ساختہ رسمیں ہیں جن کو نبھانے کے چکر میں لوگ ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔
ایک خاتون نے اپنا درد اس طرح بیان کیا کہ ان کی چار بیٹیاں شادی شدہ ہیں، ان کی شادی پر ہم نے قرض لے کر ان کا جہیز بنایا، مگر ابھی بھی جب کسی بیٹی کے سسرال میں اس کے دیور یا نند کی شادی ہوتی ہے تو ہمیں پھر تحفہ کے نام پر ایک لمبی چوڑی رقم خرچ کرنی ہوتی ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ تحائف کے جس تبادلے کو محبت میں اضافے کا سبب بتلایا گیا تھا ہمارے بے جا رسوم و رواج نے اس کو متوسط طبقے کیلئے بوجھ بنا دیا ہے۔
افسوس یہ بھی ہے کہ جو لوگ ان رسوم کی مخالفت کرتے ہیں، وقت پڑنے پر صرف یہی سوچ کر یہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہمارا یہ سنگدل معاشرہ انہیں بخیل کے لقب سے نہ نواز دے۔ آئیے ہم کچھ رسوم ورواج کا جائزہ لیتے ہیں۔
منگنی کی رسم: منگنی کا مطلب ہے: نکاح کا پیغام دینا۔ یعنی نکاح کے لئے بات چیت کا آغاز۔ یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسبت کا طے ہوجانا۔ لیکن اب اس میں اضافے شروع ہوگئے اور اشیاء کا باہم تبادلہ ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔ اور اس میں تحائف کا اس قدر اہتمام کیا جانے لگا ہے کہ شادی کی تقریب کا گمان ہوتا ہے۔ لڑکی والے لڑکے کو انگوٹھی، گھڑی، سوٹ وغیرہ کے ساتھ نقد دیتے ہیں اور ساتھ میں جانے والی خواتین فرداً فرداً اپنے تحائف پیش کرتی ہیں، اور اپنے بچوں سے بھی دلواتی ہیں، اسی طرح لڑکے والے، لڑکی کیلئے زیور، سوٹ، میک اپ کے سامان، منوں اور سیروں کے حساب سے مٹھائیاں، کھانے پینے کی بے شمار چیزیں اور نقد رقم دیتے ہیں، یعنی اب لوگوں نے منگنی کی اس رسم کو اپنی امارت کے اظہار کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔
اسی طرح لڑکی کی شادی کے موقع پر جہیز کے نام پر لوگ کپڑے کے ساتھ ساتھ کوئی بھاری سامان لے کر جانا ضروری خیال کرتے ہیں، ولیمہ کے موقع پر سلامی کے نام پر تحائف کا انبار اکٹھا ہوتا ہے۔ اور اس تحفے کو عام طور پر قرض سمجھا جاتا ہے کہ بدلے میں اپنے گھر تقریب پڑنے پر اسی جیسے تحفے کی امید رکھی جاتی ہے۔ عام مدعوئین کے علاوہ سسرال والے اپنے ساتھ بڑی تعداد میں تحائف لاتے ہیں، پھر محفل سجتی ہے، اس میں تحائف کھول کھول کر دکھائے جاتے ہیں اور اس طرح سے یہ تحفہ نہ ہو کر ریاکاری کا ایک مظہر بن جاتا ہے۔
پھر جب شادی شدہ جوڑے اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں تو لڑکی کے والدین پر پھر سے ایک آزمائش کھڑی ہوجاتی ہے، اور وہ بچے کے سامان، کپڑے، کھانے پینے کا سامان، کھلونے اور دیگر چیزوں کی فراہمی میں جٹ جاتے ہیں اور کچھ لوگ اس میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ان تقاریب میں تحائف کی لازمیت کے سبب لوگ اب اس کو ایک جرمانے کے طور پر دیکھتے ہیں جسے ہر صورت سب کو بھرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان یا ملنے جلنے والوں میں جب کسی کی شادی کی تاریخ طے ہوتی ہے تو خواتین کو سب سے پہلے یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کیا دینا دلانا ہوگا؟
آئیے ہم ان سارے مسائل کا جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
ضرورت اس بات کی ہے کہ تقریبات میں تحائف کی لازمیت کو ختم کرکے اس کو لوگوں کی رضامندی پر چھوڑ دیا جائے، لوگوں کو گراں قدر تحائف لانے سے منع کیا جائے۔
اگر کوئی محض تعاون کی غرض سے یا ایک پسندیدہ عمل سمجھ کر ہدیہ دیتا ہے، اس کے بدلے میں اسی جیسے تحفہ کی امید نہیں رکھتا ہے اور اس کا مقصد دکھاوا نہیں ہوتا ہے تو یقیناً اس کا یہ عمل پسندیدہ اور مستحسن ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ کہیں کہ اپنی اولاد اور عزیز و اقارب کو ہدیہ دینا بری بات تو نہیں تو ان سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہدیہ یا عطیہ تو دل کی خوشی سے دیا جاتا ہے، دوسرے اپنی طاقت کے مطابق دیا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ اپنی اولاد کو کوئی تحفہ دینے میں کسی موقع کا انتظار کیوں، اور پھر لوگوں کو دکھا کر دینا چہ معنی دارد۔
اس لئے تحائف دیتے وقت مندجہ ذیل چیزوں کا لحاظ کرنا چاہئے:
اختصار: یعنی گنجائش سے زیادہ تردد نہ کرنا۔
اعلان نہ کرنا: کیونکہ تحائف دینا اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ہے اس میں دوسروں کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔
تحفہ کے بدلے تحفہ: تحفہ اس نیت سے نہ دیا جائے کہ بدلے میں مجھے بھی اسی جیسا تحفہ ملے گا۔